افغانستان کے صدر اور حکومت کے سربراہ دونوں نے پاکستان پر سنگین الزامات لگائے ۔ صدر اشرف غنی نے پہلے اور عبداللہ عبداللہ نے بعد میں انہی الزامات کو دہرایا ۔ الزام یہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں میں ملوث رہاہے ۔ بم بنانے کی فیکٹریاں پاکستان میں ہیں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بھی پاکستان میں ہیں ۔ لیکن ان دونوں افغان رہنماؤں نے اپنے الزامات کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے ۔ طالبان عرصہ دراز سے افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک سے اعلانیہ جنگ لڑ رہے ہیں ان کا مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا اور اپنی کٹر مذہبی حکومت قائم کرنا ہے ۔ پاکستان ان کے خلاف لڑ رہا ہے ۔آپریشن ضرب عضب اس کی زندہ مثال ہے ۔ پاکستان نے تمام دہشت گردی کے ٹھکانے تباہ کیے اور انکے کمانڈ اور کنٹرول نظام کو بھی تباہ کیا اور اب طالبان جنگجو بھاگ رہے ہیں ،ان کو افغان سرحدی علاقوں میں پناہ نہیں مل رہی ، اب انہوں نے پاکستان کے بڑے شہروں کا رخ کرلیا ہے اور بڑی آبادی میں گھل مل گئے ہیں ۔ پاکستان نے ضرب عضب آپریشن شروع ہونے سے قبل حکومت افغانستان سے درخواست کی تھی کہ وہ تمام راستے بند کر دئیے جائیں جہاں سے طالبان جنگجو افغانستان فرار ہوسکتے ہیں ۔ افغان حکومت نے اس درخواست پر توجہ نہیں دی ،اکثر جنگجو اب افغانستان کے اندر پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں سے پاکستان کے سیکورٹی ا فواج اور عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بعض طالبان دہشت گردوں کو حکومت افغانستان اور اس کے سیکورٹی حکام نے پناہ دی ہوئی ہے ۔ وہ آئے دن پاکستان پر دیدہ دلیری کے ساتھ حملے کرتے رہے ہیں حکومت پاکستان کے زبردست احتجاج کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے ۔وہ تمام طالبان کمانڈر ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں اس سے قبل آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کا منصوبہ افغانستان میں تیار ہوا اور اس کو کنٹرول بھی افغانستان سے کیا گیا ۔ اس کے ثبوت فوری طورپر اعلیٰ ترین سطح پر افغان حکمرانوں کو فراہم کیے گئے مگر اس کے باوجود طالبان جنگجوؤں کا کمانڈ اور کنٹرول کا نظام پاکستان سے افغانستان میں منتقل ہوگیا ۔یہ بات پاکستان اورافغانستان کے مفاد میں ہے کہ دہشت گردوں کو مکمل شکست دی جائے ،پاکستان طالبان کے آخری بڑے اڈے شمالی وزیرستان سے جنگجوؤں کا کنٹرول ختم کررہاہے ۔ اب وہاں کی شہری آبادی اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں اور پورے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا ہے اب دہشت گردوں کے لئے شمالی وزیرستان اور افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ طالبان جنگجوؤں کی تمام پناہ گاہیں تباہ ہوچکی ہیں ۔ اگر اس کارروائی کے دوران افغانستان اپنی سرحدات مکمل طورپر سیل یا بند کرتا تو افغانستان کو ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ چنانچہ یہ افغان حکمرانوں کی غلطی تھی اور انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف انتہائی نرم رویہ رکھا تاکہ یہ شورش پاکستان کے اندر محصور رہے اور افغانستان اس سے پاک رہے، وہاں امن ہو۔ حالیہ ہفتوں میں طالبان نے افغانستان کے اندر تباہی مچا دی ہے، آئے دن کابل پر دہشت گردی کے حملے ہورہے ہیں۔ افغان حکمرانوں کا اپنا دارالخلافہ محفوظ نہیں رہا تو پورے افغانستان پر کس طرح حکومت کریں گے ۔ آئے دن طالبان کسی نہ کسی ضلعی ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اکثر وہاں حکمرانی بھی کرتے رہتے ہیں تاوقتیکہ ان پر فضا سے حملہ نہ کیا جائے، وہ ان اضلاع پر قابض رہتے ہیں ۔ لہذا افغانستان کے تمام الزامات غلط ہیں ، افغان حکومت اپنی کمزوریوں اور نا اہلیت کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا چاہتی ہے ۔ پاکستان کے عوام اور ریاست کا یہ بھروسہ ہے کہ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان بھی دہشت گردی سے محفوظ رہے گا کیونکہ دہشت گردوں کے تمام اڈے افغانستان میں ہیں پاکستان میں نہیں ۔
افغانستان کے ناجائز الزامات
وقتِ اشاعت : August 15 – 2015