|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2015

متحدہ قومی موومنٹ نے اس وقت پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کی جب ان کے تمام نمائندوں نے بیک وقت سینٹ آف پاکستان، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں اپنے استعفے پیش کردیئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے بغیر کسی تاخیر کے ان کے استعفوں کی جانچ پڑتال شروع کردی اور انفرادی طور پر ممبران کے انٹرویو ریکارڈ کرائے کہ آیا یہ استعفے انہوں نے اپنی مرضی اور رضا سے دیئے ہیں اور ان پر کسی کا دباؤ نہیں تھا، یا ان استعفوں پر ان کے اپنے دستخط تھے کہیں جعلی دستخط تو نہیں تھے۔ یہ تمام عمل چابکدستی سے مکمل کیا گیا اور انتظار صرف سیاسی فیصلے کا تھا کہ آیا ان کے استعفوں کو منظور کیا جائے یا انتظار کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان کے مطابق ان کے استعفے آئینی تھے اور اب ان کے استعفے قانونی اور آئینی طور پر منظور ہوچکے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں وہ اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔ البتہ وزیراعظم کی غیر ملکی دورے سے واپسی کے بعد تمام پارلیمانی پارٹی کے رہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کے استعفے منظور نہ کئے جائیں۔ متحدہ کے تحفظات دور کئے جائیں اور کراچی میں آپریشن جاری رکھا جائے۔ ادھر متحدہ کے رہنما ء الطاف حسین نے استعفے واپس لینے کے لیے چند شرائط عائد کئے ہیں اور رابطہ کمیٹی کو یہ اختیار دیا ہیکہ ان معاملات پر حکومت سے بات کرے۔ متحدہ نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے، ان کو یقین ہے کہ حکومت اتنی بڑی تعداد میں استعفے قبول نہیں کرے گی۔ اس کا اندازہ تحریک انصاف کے بحران کے دوران ہوا تھا اور حکومت پر لرزا طاری ہوگیا تھا کہ اتنے حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرانا منی جنرل الیکشن کے مترادف تھا۔ اسی طرح متحدہ کی قومی اسمبلی میں 24نشستیں، سینٹ آف پاکستان میں آٹھ اور سندھ اسمبلی میں 51نشستیں ہیں۔ متحدہ ملک کی چار بڑی پارٹیوں میں سے ایک ہے لہٰذا حکومت ان کے استعفے منظور نہیں کرسکتی۔ البتہ مطالبات میں سے بعض تسلیم کئے جاسکتے ہیں اور بعض پر حکومت اور عسکری قیادت بات کرنے پر تیار نہیں ہوگی اس لئے معاملہ الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ البتہ متحدہ اس دوران کچھ رعایتیں ضرور حاصل کرے گی اوراس کے خلاف آپریشن کے شدت میں کمی آسکتی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ عسکری قیادت متحدہ کو کھلی چھٹی دے اور پرانی صورت حال کو دوبارہ بحال کرے یوں پھر سے متحدہ کا راج کراچی اور دوسرے شہروں پر دوبارہ قائم ہو۔ تاہم متحدہ کا بحران پیدا کرنا ایک قدرتی عمل نظر آتا ہے۔ حکومت اس وقت بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے اور متحدہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد متحدہ کو بہت کچھ زیادہ نہیں مل سکے گا۔ آپریشن کا صرف ایک مقصد واضح طور پر نظر آرہا ہے، وہ ہے متحدہ کے جنگجو ونگ کا خاتمہ۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو متحدہ کی سیاست پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا تک نہیں ہے اوروہ روایاتی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے بعض رہنما ء ارب پتی بن چکے ہیں، دو چار اور بن جائیں تو مسلم لیگ کو تو کم سے کم کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر ان کی عسکری ونگ کو حکومت پاکستان اور ملک کی عسکری قیادت کبھی بھی قبول نہیں کرے گی بلکہ عسکری قیادت کی خواہش ہوگی کہ عسکری ونگ کے لوگ رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیں اور ملک کے اندر معمول کی زندگی بسر کریں۔ فوج کے برابر کسی بھی عسکری ونگ کو قبول نہیں کیا جائے گا یہ آخری نکتہ ہے جس پر الطاف حسین کو اپنی رائے دینی ہے ورنہ متحدہ کے ہر رکن کو عسکری ونگ کا رکن گردانا جائے گا اور اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔