|

وقتِ اشاعت :   August 17 – 2015

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کیا اور متعلقہ حکام سے دو طرفہ معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کے دورے کا واحد مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کواور زیادہ مضبوط بنانا ہے خصوصاً ایران جوہری معاہدے کے بعد ایران کی پورے خطے میں اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایران اس خطے کا ایک مالی سپر پاور بن کر ابھرنے والا ہے۔ خصوصاً ایران کے منجمد اثاثے جاری ہونے کے بعد ایران کو 150ارب ڈالر ملیں گے اور دنیا کے تمام ممالک ان کو تیل کی قیمت ادا کریں گے کیونکہ اقتصادی پابندیوں کے بعد بعض ممالک نے یہ رقم روک لی تھی۔ ادھر پاکستان بھی اب ایران۔ پاکستان گیس پائپ لائن کی جلد سے جلد تعمیر میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس سے قبل معاشی اور اقتصادی پابندیوں کی خوف سے تقریباً یہ پائپ لائن منصوبہ منسوخ کردیا گیا تھا بلکہ ایران سے 500کروڑ ڈالر کی رقم قرض لینے سے بھی انکار کردیا گیا۔ معاہدے میں ایک شرط پائپ لائن کو مقررہ وقت پر تعمیر نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو روزانہ جرمانہ کی ادائیگی بھی تھی مگر ایران نے اس شق پر عمل نہیں کیا اور اس نے پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھ لیا اور درگزر سے کام لیا۔ صدر چین کے دورہ پاکستان کے دوران چین نے یہ وعدہ کیا کہ وہ گوادر سے نواب شاہ تک 700کلومیٹر کی گیس پائپ لائن تعمیر کرے گا جبکہ چاہ بہار سے گوادر تک 80کلومیٹر کی گیس پائپ لائن پاکستان خود تعمیر کرے گا۔ یہ پورا منصوبہ اگلے دو یا تین سالوں میں مکمل ہوگا۔ ایران نے پاکستان کو بڑی رعایتیں دی ہیں۔ ایک تو جرمانہ وصول نہیں کیا اور دوسرا وقت کی توسیع تاکہ پاکستان یہ منصوبہ زیادہ مدت میں مکمل کرے۔ آج کل ایرانی گیس کی خریداری کے لئے بہت زیادہ صارفین ممالک ہیں لیکن ایران نے اپنے پڑوسی ممالک کو ترجیح دی۔ اس منصوبہ میں بھارت بھی شامل تھا لیکن بھارت اقتصادی پابندیوں کے خوف سے منصوبے سے نکل گیا اب وہ چاہ بہار میں 78کروڑ ڈالر کی مالیت سے ایک کھاد کا کارخانہ لگائے گا۔ اس کی 13لاکھ ٹن کھاد کی پیداوار کو خود بھارت خریدے گا اور ملک کے اندر کھاد کی ضروریات پوری کرے گا۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان اور ایران کا قریبی تعاون نظر آرہا ہے۔ ماہرین معاشیات کی یہ تجویز ہے کہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کی معیشت کو یکجا کیا جائے اور اس کو خطے میں معاشی ترقی کی ایک مثال بنائی جائے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی سہولیات سے فائدہ اٹھائیں۔ ہماری ریلوے لائن زاہدان تک موجود ہے صرف گوادر کی بندرگاہ کو کوئٹہ۔زاہدان ریلوے نظام سے کسی ایک مناسب مقام پر ملادیا جائے تو چاہ بہار اور گوادر دونوں بندرگاہیں ریلوے کے نظام سے منسلک ہوجائیں گی۔ دونوں ممالک چاہ بہار اور گوادر کارگو کی ترسیل میں تعاون کریں اور دونوں صوبوں کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جائے تاکہ خطے سے بے روزگاری اور پسماندگی کا خاتمہ ہو۔ گزشتہ سالوں پاکستان کا رویہ سرد مہری کا رہا ہے اور یہاں تک کہ بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لئے ایران سے بجلی خریدنے سے اجتناب برتا گیا جس کی وجہ سے آج تک پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایران سے 3000میگاواٹ بجلی خریدی جائے گی تاکہ ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوں اور ملک میں لوڈشیڈنگ کم سے کم ہو۔ اس مقصد کے لئے ایران سے تعاون حاصل کرنا ضر وری ہوگا اور ایران کو یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کی آزادی اور سالمیت کا احترام کیا جانا لازمی ہے اور پاکستان کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے جس کا مقصد ایران کو نقصان پہنچانا ہو اور یہی توقعات پاکستان اور اس کے عوام ایران سے رکھتے ہیں۔