|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2022

بلوچستان اپنے جغرافیائی اور تزویراتی محل و قوع کی وجہ سے صدیوں سے عالمی او رسامراجی طاقتوں کی نظر میں رہا ہے ۔خصوصاً جب انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت ہند کے بعد پورے برصغیر پر اپنا نوآبادیاتی تسلط قائم کرلیا تو وہ اس سے قبل بلوچستان کی جانب متوجہ ہوچکے تھے جہاں قلات ، لسبیلہ ، مکران او رخاران میں آزاد ریاستوں کے علاوہ آزاد قبائلی علاقہ موجود تھا۔


۱۸۱۰؁ء میں برٹش آرمی آفیسر ہنری پوٹنگر اور کرسٹی بلوچستان کی ساحل پر اُترے او ریاستی بلوچستان سے ہوتے ہوئے چاغی ، نوشکی میں وارد ہوئے ۔ کہیں حاجی کا روپ دھار کر اور کہیں گھوڑوں کے بیوپاری کے بھیس میں وہ بلوچستان کے قبائلی علاقوں ، راستوں ، آبادیوں ،پانی کے ذرائع اور دیگر دستیاب وسائل کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف راستوںسے ایران کے شہر کرمان پہنچے۔
انگریزوں کے بعد کی کاروائیاں او رپالیسیاں انہی افسران کی رپورٹوں کومد نظر رکھ کر سر انجام دی گئیں۔ ۱۸۳۹؁ء میں خان آف قلات میر محراب خان کے قلعہ پر حملہ کیا گیا او رانہیں شہید کرکے قلات پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیاگیا۔

انگریزوں کو خطرہ تھا کہ اگر اس وقت کی سپر پاورجرمنی کی برصغیر کی جانب پیش قدمی کی صورت میں ان علاقوں پر انگریزکی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے جرمنی کسی مزاحمت کے بغیر براہ راست برطانوی ہند کی جناب پیش قدمی کر سکتا ہے ۔ریاست قلات پر اپنا اثر رسوخ قائم کرنا افغان سرحد سے متصل علاقوں میں برٹش بلوچستان کا قیام، بلوچستان میں ریلوے اور آمدورفت کا نظام اور حکومتی عمل داری کے اداروں کا قیام اسی فارورڈ پالیسی کو مد نظر رکھ کر عمل میں لایا گیا تھا۔

۱۸۶۹؁ء میں گنڈا مک معاہدے کے تحت چمن ، پشین ، شورہ رود ، شاہ رگ ، دکی او رسبی کا علاقہ برٹش بلوچستان کا حصہ بنا۔ کوئٹہ ، بولان نوشکی(چاغی) اور نصیر آباد ایجنسی کا حصہ کہلائے ۔ژوب ، لورالائی ، کوہلو ، دالبندین کے علاقے سرداروں نے انگریزوں کے حوالے کئے۔ او ریہ سارا علاقہ برٹش بلوچستان کہلایا۔ اس کے علاوہ ریاستی بلوچستان میں ریاست قلات ، خان قلات (احمد زئی) خاران کی ریاست نواب خاران( نوشیروان) مکران ،نواب مکران(گچکی) اور لسبیلہ جام حکمرانوں کے زیر نگین تھا۔ مگر اس پر بھی انگریزوں نے اپنی عمل داری اور اثر و رسوخ قائم کر رکھاتھا۔

۱۸۷۸؁ء میں دوسری افغان جنگ میں ژوب کے کاکڑوں کا رویہ انگریزوں کے لئے اہمیت اختیار کرگیا۔اس زمانے میں علاقے میں ژوب کے کاکڑوں ، بوری اور ملحقہ اضلاع کچھ اور کواس پر اہم مقتدر قوت ژوب کے کاکڑوں کا جوگیزئی خاندان تھا۔
اس وقت نواب جوگیزئی کا بیٹا شاہ جہان جوگیزئی خاندان میں بڑا اثر رسوخ کا حامل تھا۔نواب کے چھ بیٹوں میں وہ تمام اختیارات کے ساتھ موثر قوت تھا گوکہ اس کے اور چچازاد بھائیوں کے درمیان طاقت کے توازن کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی رسہ کشی بھی چل رہی تھی۔ شاہ جہان جس کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ اس کے پاس کچھ غیر مرئی طاقتیں ہیں او روہ ایک ولی فقیر ہے جس میں معجزاتی کشش ہے اس نے سنزر خیل کاکڑوں کے مختلف دھڑوں پر کلی اختیار رکھنے کے ساتھ ساتھ سنیتا کاکڑ قبائل مثلاً سارنگزئی او رپانیزیوں کوبھی اپنے دائرہ اختیار میں لایا تھا۔ او ریہ قبائل اس کی ہر بات پر لبیک کہنے پر تیار تھے۔ دوسری افغان جنگ کے دوران یہ بات انگریزوں کے دماغ میں تھی کہ چونکہ شاہ جہان انگریزوں سے نفرت کرتا ہے ۔

اس لئے وہ افغان جنگ کے دوران ذرائع مواصلات کو بند کر سکتا ہے۔اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب ۱۸۷۹؁ء میں وہ دستے جو افغانستان سے واپس جارہے تھے ان میں سے پہلا دستہ جب تھل چوٹیالی روٹ پر ’’ بغائو ‘‘ جو سنجاوی سے ۱۵کلومیٹر دور ہے پہنچاتو یہ خبر آئی کہ شاہ جہان۴۵۰۰ قبائلیوں کے لشکر کے ساتھ اس دستے پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ انگریزوں نے اپنے آدھے لشکر کو شاہ جہان کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ نتیجتاً ان کے درمیان مڈبھیر ہوئی اور شاہ جہان بڑے جانی نقصان کے بعد ناکام ہوا۔ اس فوری اقدام سے کاکڑوں کی کاروائیوں کو تھوڑے وقفے کے لئے فرو کیا۔شاہ جہان نے تحریری جنگ بندی کا پیغام بھیجا مگر وہ خود پیش نہ ہوئے۔

البتہ افغانستان کے واقعات اس علاقے کو متواترمتاثر کر تے رہے۔ کابل میں برطانوی سفیر کے قتل اور افغانستان میں امیر یعقوب خان کو اقتدار سے محروم کرنے کے عمل نے کاکڑوں کی شورش پر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ۱۸۸۰؁ء کے اوائل میں کیپٹن شاور جو لیویز کا سپرنٹنڈنٹ تھا اسے ’’ اوژدہ پاشہ ‘‘ وادی میں قتل کیا گیا یہ علاقہ کھوسٹ اور ہنہ وادی کے درمیان تھا۔ حملہ آور سنتیا کاکڑ کی شاخ پانیزئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد اسی سال موسم خزاں میں کچھ میں ژوب کے کاکڑ ، سارنگزئی اور پانیزئی قبائل نے ایک ملٹری پوسٹ پر حملہ کیا۔ جنہیں شاہ جہان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہ حملہ بظاہر پسپا ہوا مگر اس میں انگریزوں کو بہت نقصان پہنچا۔

دوسری افغان جنگ کے خاتمے کے بعد ضلع تھل چوٹیالی ( زیارت )براہ راست برٹش عمل داری میں آگیا۔ کیونکہ افغانستان کے بادشاہ امیر یعقوب کے ساتھ گنڈا مک معاہدے میں یہ ہونا طے پایا تھا۔ مگر وادی بوری میں جہاں پہاڑی علاقہ تھا شاہ جہان نے اپنے بو ری ساتھیوں سمیت انگریز پوسٹوں اور مفادات پر حملے جاری رکھے۔ ان میں حمزہ زئی ، اتمانخیل او رکبزئی شامل تھے۔ ان حملوں میں دکی میں ایک عمارت کی تعمیر میں شامل ’’ کولیز ‘‘ پر حملہ بھی شامل تھا۔

آخر انگریز نے محسوس کیا کہ جب تک شاہ جہان اور بوری کے لوگوں سے سختی سے نمٹا نہیں جائے گا ریلوے اوردیگر تنصیبات ان کے دست برد سے محفوظ نہ ہونگے۔اپریل ۱۸۸۴؁ء میں حکومت ہند کی منظوری سے شاہ جہان کے خلاف فوجی کاروائی کا فیصلہ کیاگیا مگر علاقے میں خوراک کی کمی او ردیگر وجوہات کی بنا پر اس کاروائی کو ملتوی کرنا پڑا۔ ۴ اکتوبر ۱۸۸۴؁ء کو ایک فورس ترتیب دی گئی جو تھل چوٹیالی پہنچی جس کو بریگیڈیئر جنرل ٹیز کمان کر رہے تھے۔ بلوچستان کے اے جی جی رابرٹ سنڈیمن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے تھل چوٹیالی میں دربار لگایا جس میں بوری کے تقریباً تمام سربراہان قبائل نے ان کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا۔ شاہ جہان ، سردار بھائی خان سارنگزئی اس دربار میں پیش نہ ہوئے او رنہ ہی کبزئی او رموسیٰ خیل حاضر ہوئے جس کی امید کی جارہی تھی۔اختر زئی میں شاہ جہان کے قلعے پر حملہ کیا گیا اور اس پر قبضہ کیاگیا ۔شاہ جہان فرا ر ہوکر پہاڑوں میں چھپ گیا۔۲۶ اکتو بر ۱۸۸۴؁ء کو فورس قلعہ سیف اللہ پہنچی ۔شاہ جہان اور اس کے چچازاددوست محمد کے قلعہ اورگائوں کومسمار کیا گیا اور انہیں آگ لگائی گئی ۔شاہ جہان شمال میں فرار ہوگیا ۔شاہ جہان کا چچاز اد شہباز خان جوگیزئی خاندان کی طاقت اور اتھارٹی کی وجہ سے ان سے طاقت لے کر قبائلی حیثیت بحال کرسکے۔ شاہ جہان کاداماد بشارت خان جو گیزئی کا کڑ کا معتبر تھا۔ ہندو باغ ( آج کا مسلم باغ) میں بشارت قلعہ میں رہتا تھا، اسے گرفتار کیاگیا۔ آہستہ آہستہ تمام قبائل انگریزی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے رہے۔
حکومت انڈیا کی منظوری سے شہباز خان کو ژوب کا سردار اور حکمران نامزد گیا گیا۔ شاہ جہان اور اس کے خاندان او رچند ایک اوروں کے علاوہ تمام نے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ اس کی قبائلی حیثیت بحال ہوئی مگر علاقے میں انگریزوں کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آگیا۔

اس وسیع و عریض اور دشوار گزار علاقے پر جرائم کی روک تھام ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔ وہ بھی ایسے علاقے میں جہاں مواصلات کا نظام مشکل اور ناپید ہو۔ جہاں لوگ صدیوں سے قبائلی رسوم و رواج کے تحت زندگی گزار رہے ہوں اور وہ اپنی زندگی کے معاملات میں بیرونی مداخلت کو پسندنہ کرتے ہوں البتہ اس کے مزاحم ہوں تو وہاں قانون کی حکمرانی۔ جرائم کی سرکوبی ، انصاف کی فراہمی یقینا ایک کٹھن معاملہ ہے۔

مقامی لوگوں کی نفسیات کو بھانپتے ہوئے انگریزوں نے براہ راست برٹش انڈیا کے قوانین نافذ کرنے کی بجائے ایسانظام متعارف کرایا جو ان کی رسومات اور سوچ کے متضاد نہیں تھا۔انگریزوں سے قبل اس علاقے میں کوئی مرکزی کرمنل جسٹس سسٹم اور موثر گورننس کا نظام موجود نہیں تھا۔ قبائل اپنے فیصلے جرگہ سسٹم کے تحت مل بیٹھ کر کرتے تھے۔ انہوں نے اسی نظام کو ہی رہنے دیا۔ جرائم کے خاتمے کے لئے او رنظم و ضبط لانے او رانتظامی امور کے لئے لیویز کا نظام رائج کیا تاکہ سارے تصفیہ طلب جھگڑے باہمی مشاورت سے حل کئے جاسکیں۔مقامی سردارکو جرائم کی سرکوبی کا اختیار دینے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے قبیلے اور علاقے پر نظر رکھنے کا پابند بنایا گیا۔مقامی قبائل نے لیویز کے نظام کو اس لئے ذہنی طورپر قبول کیا کہ اس سے سوسائٹی میں چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ انصاف کی فراہمی بھی آسان ہوگئی تھی۔

قبائلی نظام میں جرم اور سزا کے اپنے پیمانے ہیں ۔اس نظام میں اگر کسی کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہے تو وہ متاثرہ شخص اس کا ازالہ اپنے رسوم و رواج کے مطابق چاہتا ہے۔ کسی چو رکے پکڑے جانے سے رائج قوانین کے مطابق اسے کوئی بھی سخت سزاد ی جائے تو اس سے متاثر ہ شخص مطمئن نہیں ہوگا جب تک اسے وہ سزا نہ دی جائے جو وہ چاہتا ہے۔مثلاً چوری پکڑے جانے کی صورت میں چور سے مسروقہ سامان برآمد کیاجائے اسے قید کیاجائے جرمانہ کیاجائے اس سے متاثرہ شخص مطمئن نہیں ہوگا کیونکہ وہ چاہے گا کہ اس چور کو علاقہ بدری کی سزا ملے۔ اور چور کے لئے بھی یہ سزا قبائلی حوالے سے بہت سخت ہے کیونکہ وہ اس کے بعد اپنے علاقے میں جانہیں سکتا۔ اور اگر جانے کی کوشش کرے گا تو پھر سزا کا مستوجب ہوگا۔

قتل کے کیسوں میں عائلی قوانین کے مطابق قاتل کو سزائے قید ملنے پربھی مقتول کے ورثاء مطمئن نہیں ہوتے۔اسی لئے قید بھگتنے کے بعد بھی قاتل کو مقتول کے ورثاء کی جانب سے بدلے میں مارے جانے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔اس کے مقابلے میں اگر کوئی مناسب جرگہ قتل اورخون کا فیصلہ کرے تو دونوں فریق اس کی پابندی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

۱۸۹۰؁ء میں قانون کی حکمرانی اور بہتر گورننس کے قیام کے لئے ژوب لیوی کور کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ کیپٹن Mealyاس کے پہلے کمانڈنٹ بنے۔مقامی طورپر اس فورس کی فعالیت اور قبولیت کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس فورس کا دائرہ پورے بلوچستان تک پھیلا یا گیا جو قیام پاکستان تک جاری رہا۔مارچ ۱۹۴۸؁ء کو خان آف قلات نے قلات اسٹیٹ کو پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیااور برٹش بلوچستان کے علاقوں کی شمولیت کافیصلہ قبائلی سرداروں کی کمیٹی نے کیا۔قیام پاکستان کے بعد بھی اس فورس کو قائم و دائم رکھا گیا۔ حتی ٰ کہ ایک وقت میں ان علاقون کو جو لیویز کے زیر اختیار تھے جب پولیس ایریا ڈکلیئر کیا گیا تو بلوچستان اسمبلی نے اس کی مخالفت میں قرار داد پاس کی اور اس فیصلے کوواپس لیاگیا۔