|

وقتِ اشاعت :   August 20 – 2015

اٹک میں خودکش حملہ ہوا جس میں پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ سمیت بیس آدمی جاں بحق ہوگئے ۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ٹارگٹ وزیر مرحوم تھے ۔ دو دہشت گردوں نے مل کر یہ خود کش حملہ کیا ایک حملہ آور اس مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں پر وزیر لوگوں سے ملاقات کررہے تھے۔دوسرا خودکش حملہ آور باہر گلی میں ان کے مکان کی اہم ترین دیوار کو نشانہ بنائے ہوئے تھا جس کے دھماکے کے بعد پوری عمارت زمین بوس ہوگئی اور اس کے ملبے تلے وزیر شجاع خانزادہ اور بیس دیگر افراد ہلاک ہوئے ۔
بعض مبصرین کے مطابق دہشت گردوں نے ملک اسحاق اور اس کے دو بیٹوں کے قتل کا بدلہ لیا ہے ۔ پولیس اور دیگر تفتیش کرنے والوں کی ابھی تک رائے یہی ہے کہ اس میں لشکر جھنگوی ملوث ہے ۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے بعض لوگوں کو سالوں سے یہ شکایت تھی کہ حکومت پنجاب خصوصاً شہبازشریف کا رویہ دہشت گردوں اور انکی تنظیموں کے بارے میں نرم ہے یا سخت گیر نہیں ہے بلکہ یہاں تک میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ پنجاب میں تمام دہشت گرد تنظیموں کے دفاتر ہیں، ان کے ریکرومنٹ مراکز ہیں ،وہیں پر دہشت گرد بھرتی ہوتے ہیں اور ان کو ٹریننگ دی جاتی ہے اور کارروائی وہ کہیں اور جا کر کرتے ہیں شاید پنجابی طالبان کا نام بھی اس وجہ سے پڑا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں نے پنجاب میں بہت سی وارداتیں کیں، خودکش حملے کیے، بم کے حملے کیے مگر اس پیمانے کی کارروائی ان دہشت گردوں کے خلاف پنجاب میں نہیں ہوا۔ شجاع خانزادہ شاید واحد پنجاب کے وزیر تھے جو ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی نہ صرف تیاریاں کررہے تھے بلکہ ملک اسحاق کا واقعہ بھی ان کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے پیش آیا ۔ جب لشکر جھنگوی کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے پولیس گارڈ سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی تب جا کر پولیس نے فائر کھول دیا، جس میں ملک اسحاق اور اس کے دو بیٹے موقع پر ہلاک ہوئے ۔ملک اسحاق لشکر جھنگوی کے سربراہ تھے اور اس کی تنظیم نے ہزاروں انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول بھی کی لیکن ملک اسحاق کو کچھ نہیں ہوا ۔ ریاست اس کے خلاف کارروائی نہ کر سکی یہاں تک کہ اس نے القاعدہ جیسے دہشت گرد تنظیم سے الحاق کردیا ۔ شاید یہ شجاع خانزاہ کی بہادری اور دلیری تھی کہ پولیس نے یہ کارروائی کی ۔ دہشت گردوں نے شجاع خانزادہ کو شاید اس لئے نشانہ بنایا کہ اس نے پنجاب میں ان کے خلاف کاروائی کرنا چاہتے تھے اور حکومت اور ریاستی اداروں کو یہ اشارہ دے دیا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی عوام اور حکومت کے مفاد میں ہے ۔ اٹک میں دہشت گردانہ کارروائی کے بعد پنجاب حکومت کے لئے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ پنجاب کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلائی جائے اور تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز اور سخت کارروائی کی جائے جیسا کہ مسلح افواج نے شمالی وزیرستان میں کی اور آخری دہشت گرد تک ان کا پیچھا جاری رہے گا۔ اس میں فضائیہ بھی استعمال کی جاری ہے ،توپ خانے کا بھی استعمال ہورہا ہے اور ساتھ ساتھ بے گھر لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں آباد بھی کیا جارہا ہے ۔ پنجاب اور وفاقی حکومت کو ’’ اچھا دہشت گرد اور برا دہشت گرد‘‘ کا امتیاز ختم کرنا پڑے گا کیونکہ یہ اچھا اور فرمانبردار دہشت گرد کسی مناسب موقع پر حملہ آور بھی ہوسکتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ لشکر جھنگوی کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ یہ تک ہوا کہ لشکر جھنگوی کے قاتل اور مجرم کو زیادہ سے زیادہ سیکورٹی میں جیل سے فرار کرادیا جاتا تھا ۔ لہذا اب انسانوں کا قتل عام بالکل بند ہوناچائیے ان تمام دہشت گردوں کا صفایا کیاجائے ، ان سے اسلحے چھین لیے جائیں اور ان کے فنڈز ضبط کیے جائیں تاکہ پاکستان امن کاا یک مکمل گہوارہ بن جائے ۔