|

وقتِ اشاعت :   March 22 – 2022

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے بیرک گولڈ کمپنی کے صدر مسٹر مارک برسٹو نے اپنی کمپنی کے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ بلوچستان ہاؤس میں ملاقات کی۔

ریکوڈک معاہدے کے فوری بعد اہمیت کی حامل اس ملاقات میں پارلیمانی سیکریٹری معدنیات مٹھا خان کا کڑ ،چیف سیکریٹری مطہر نیاز رانا اور سیکریٹری محکمہ معدنیات بھی موجود تھے۔ ملاقات میں ریکو ڈک معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق امورپر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ بیرک گولڈ کمپنی کے صدر نے کامیاب معاہدے پر وزیراعلیٰ بلوچستان اور انکی ٹیم کو مبارکباد پیش کی جبکہ دونوں جانب سے معاہدے پر باہمی اعتماد کی فضاء میں کامیاب عملدرآمد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ریکوڈک معاہدے پر بلوچستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان اب پسماندگی ،احساس محرومی، انسرجنسی اور بد امنی کا نہیں بلکہ سرمایہ کاری اور تعمیر وترقی کا میدان بنے گا ۔ریکو ڈک پر فیصلے میں دس سال کی تاخیر کا نقصان سرمایہ کاروں اور ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کو پہنچاتاہم اب اس نقصان کے ازالے کا وقت آ گیا ہے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ریکو ڈک منصوبہ بلوچستان اور ہمارے نوجوانوں کو دنیا بھر سے جوڑے گا۔ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی اور ہم دنیا کے شانہ بشانہ چلیں گے۔ لیڈر شپ کا کام پالیسی دینا اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہو تا ہے، اگر لیڈر شپ فیصلے کرنے میں تاخیر کرے اور نظریں چرائیں تو اس کا نقصان آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے، عوام بھی اپنی لیڈر شپ سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم ریکو ڈک معاہدے میں نہ صرف اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے آخری حد تک گئے بلکہ ملک کی تاریخ کا سب سے بہترین معاہدہ کیا ۔

ہم وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انکی ٹیم کے مشکور ہیں جنہوں نے ہماری تلخ باتوں کو برداشت کرتے ہوئے ایک تاریخی ڈیل میں ہماری مدد کی ۔اس موقع پر بیرک گولڈ کمپنی کے صدر مسٹر مارک برسٹو نے کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پارٹنر شپ کرنے جارہے ہیں ،پارٹنر شپ میں اچھی اور بری صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے تاہم ہم نے ماضی کے واقعات کو بھلا کر مستقبل کی جانب سفر کا آغاز کیا ہے جسکے عمدہ نتائج برآمد ہونگے ۔صدر بیرک گولڈ کمپنی نے کہا کہ فریقین کے درمیان اعتماد سازی کی جس فضا کی ضرورت تھی وہ قائم ہوچکی ہے جس کے تحت بات چیت کے ذریعے معاہدے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ریکو ڈک منصوبے میں بلوچستان کے مفادات اور یہاں کے نوجوانوں کے روزگار کو بھرپور تحفظ حاصل رہے گا ۔وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو بہت ہی پُرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔

اس امید کے ساتھ کہ ریکوڈک معاہدے کے بعد بلوچستان کی محرومیاں ختم ہوجائینگی اور اس کا براہ راست فائدہ بلوچستان کو ملے گا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ اس سے قبل جتنے بھی میگا منصوبے بلوچستان میں چل رہے ہیں ان سے بلوچستان حکومت اور عوام کودھیلے کا فائدہ نہیں پہنچا ،بلوچستان کا جو اپنا حصہ بنتا ہے وہ بھی اسے نہیں دیا گیا ۔ایسی بیسیوئوں مثالیں موجود ہیں کہ سوئی گیس سے لے سیندک اور سی پیک منصوبے تک بلوچستان میں کوئی بڑی تبدیلی تو کجا اس سے ان علاقوں تک کو ریلیف نہیں ملا ،اس لیے بارہا انہی خدشات کا اظہار کیاجاتا ہے کہ بلوچستان میں بڑے منصوبوں کے معاہدوں کے وقت وعدے وعید توبہت کئے جاتے ہیںبعینہ جس طرح کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وفاق کے نمائندے اس منصوبے کے معاہدے کے وقت کررہے ہیں کہ اس سے بہت بڑامعاشی انقلاب آئے گا جس سے بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور اس تبدیلی کے ثمرات سے غریب عوام فائدہ اٹھائینگے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے اورآخر میں بلوچستان کو ٹھینگا دکھا دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جو آج تک بنیادی سہولیات تک سے محروم ہے اداروں کی حالت زار سب کے سامنے ہے کہ ہمارے لوگ اپنی بیماری سے لیکر پڑھائی تک کے لیے شہر سے باہر جانے پر مجبور ہیں جبکہ روزگار کی غرض سے بڑی تعداد دیگر شہروں میں جاتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقع تک بلوچستان میںمیسر نہیں ہیں ،یہ انتہائی سنجیدہ مسائل ہیں جن پربحث کرنے کی ضرورت ہے اور عوامی مسائل کی نشاندہی اور انہیں حل کرنا سیاسی قیادت کی ذ مہ داری ہے ۔

بدقسمتی سے بلوچستان کا مقدمہ سیاسی قیادت نے اس طرح سے نہیں لڑا جس طرح سے دیگر صوبوں کے اندر صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاق سے شکوہ ضرور ہے مگر صوبائی حکومت خود اپنی ذمہ داری کے ساتھ بلوچستان کا مقدمہ لڑے اور تمام اسٹیک ہولڈرزکو ساتھ لے کر چلے تب جاکر یہ مسائل حل ہونگے ۔ امید ہے کہ اس بار ریکوڈک منصوبے پر کوئی تنازعہ کھڑا نہیںہوگا بلکہ اس سے فائدہ ہی حاصل کیاجائے گا اور بلوچستان کا احساس محرومی مزید نہیں بڑھے گاکہ سب کچھ وفاق اور مذکورہ کمپنی لے جائیں اور بلوچستان ان کو حسرت سے دیکھتا رہے جس طرح کہ سوئی گیس، سیندک، گوادر پورٹ اور دیگر منصوبوں میں ہوتا رہا ہے کیونکہ سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اس کا اندازہ آنے والے چند سالوں میں ہوگا جب ریکوڈک سے پیداوار شروع ہوگی اور اس کا بھی پتہ چلے گا کہ وفاق کی سوچ میں بلوچستان کے حوالے کیا تبدیلی آئی ہے، تو پھر انتظار کرتے ہیں۔