|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2022

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں اگلے مالی سال کے بجٹ پر قبل از میزانیے بحث کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی وزیر میر اسداللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں مسائل کے حل کے لئے شروع دن سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہم ہر اس جماعت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جن کا مقصد بلوچستان کے مسائل کا حل ہو وسائل کی تقسیم منصفانہ طریقے پر ہو اس وسائل کی تقسیم میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے تو اس کے خلاف آواز بلند کروں گا اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے میںجدوجہد کرتا رہوں گا ۔

انہوںنے کہا کہ جن پارٹیوںنے یہاں ہکومت کی ان کی ہوس ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہی بھلے پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر سارا سمندر سال ہو اور پوری زمین روٹی بن جائے پھر بھی ان جماعتوں کی بھوک ختم نہیں ہوگی ۔ دنیا میں سرحدی تجارت کی بدولت بہت سارے ممالک اپنی بہت ساری ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کیا حالت بنی ہوئی ہے آپ مکران ڈویژن میں پنجگور ، تربت اور مند بارڈرز کو دیکھیں یا پھر چمن بارڈر کوئی سہولت دستیاب نہیںوہ معصوم بچہ جسے حالات نے گھی کا کنستر تھمادیا ہے اور وہ سرحد پار کرکے گھی لاتا لیجاتا ہے ہمیں اس بچے کو اون کرنا چاہئے اس طرح کے ہزاروں بچے سرحدی علاقوں میں ہماری توجہ چاہتے ہیں ہمارے پاس طویل سرحدی پٹی ہے ان پر بارڈر مارکیٹس قائم کرکے ہم لوگوں کو روزگار کے مواقع دے سکتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں مسائل کی بہتات ہے اور میںسفارش کروں گا کہ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح سے ماسٹر پلاننگ اور ٹائون پلاننگ کرنی چاہئے ہمارے عوام کوآج اس جدید دور میں بھی پینے کاپانی تک میسر نہیں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ہمیں عام آدمی کے ریلیف اور فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات اٹھانے ہوںگے منصوبہ بندی کرنی ہوگی عام آدمی کو ریلیف ملے تبھی ہم ایک عوامی بجٹ لاسکتے ہیں فقط چند اراکین کے ریلیف کو عوام دوست بجٹ نہیں کہا جاسکتا انہوںنے اپوزیشن بینچز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نام کی حد تک تو اپوزیشن ہے لیکن اس وقت عملاً جتنے بھی اراکین ہیں64کے64ٹریژری میں ہیں میں وزیراعلیٰ کو تجویز دیتا ہوں کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کو ساتھ لے کر مرکز میں جائیں اس سے پہلے ہم یہاں مختلف منصوبے تجویز کرکے ان کا پی سی ون وغیرہ تیارکریں اور پھر وفاق میں جا کر بات کریں تو بلوچستان کے لئے وفاق سے بہتر سے بہتر منصوبے لاسکتے ہیں مرکز میں ہمارے ساتھ بہت زیادتی ہوتی ہے ہمیں اس پر مل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے عوام جنہوںنے ہمیں منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجا ہے ان کے مسائل کے حل کو یقینی بنایا جاسکے ۔صوبائی وزیرسردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد یا تو زراعت سے وابستہ ہے یا پھربارڈر ٹریڈ سے ۔

موجودہ حکومت نے بارڈر ٹریڈ کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے ہیں بجٹ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا عوام کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ میں بہتر منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔انہوںنے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وہ ساتھی جو سابق حکومت میں بھی رہے اور موجودہ حکومت کا بھی حصہ ہیں غلط الزامات لگا کر صوبے کو بدنام کررہے ہیں انہوںنے کہا کہ صوبے میں نوکریوں کو فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا ہے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کوئی مجھ پر ایک نوکری بھی فروخت کرنے کا الزام ثابت کردے میں یہ ایوان چھوڑ دوں گا ۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے ایک سینئر رکن نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان حکومت کی تبدیلی میں ساڑھے تین ارب روپے لگے ہیں میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ ساڑھے تین سو روپے بھی ثابت کریں میں پہلا شخص ہوں گا جو وزیراعلیٰ سے باز پرس کرے گا ۔ ہم سب نے اکھٹے ہو کر صوبے میں حکومت تبدیل کی ۔ ایمانداری کے لبادے میں سابق حکومت میں جو کچھ ہوتا رہا ان سب کا علم ہے وقت آنے پراگر ضرورت محسوس ہوئی تو بتا ئوں گا۔ انہوںنے کہا کہ منفی ہرزہ سرائی صوبے کی جاری ترقی پر اثرانداز ہوگی ۔ شہبا ز شریف اور بلاول بھٹو سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ سنی سنائی باتوں پر نہ جائیں ۔انہوںنے ڈپٹی سپیکر سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے موبائل میں موجود ایک آڈیو کلپ ایوان کو سنانا چاہتے ہیں جس میں ٹھیکیدار سے کمیشن طلب کیا جارہا ہے انہوںنے مذکورہ آڈیو کلپ ایوان کو سناتے ہوئے کہا کہ یہ آواز جلا وطن بلوچ رہنماء براہمد غ بگٹی کی ہے ۔جو ٹھیکیدار کو کہہ رہے ہیںکہ آپ نے میرا حصہ نہیں پہنچایا اور کا م شروع کردیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ کمیشن مانگنے والے بلوچستان کو کیا آزادی دلائیں گے ۔ نوجوانوں کو ورغلاکر پہاڑوں پر بھیج کر یہاں بھتہ لیا جارہا ہے ۔انہوںنے ایوان میں اغواء برائے تاوان کے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مغوی سے پیسے لے کر اسے چھوڑا گیا ہے بجلی کے ٹاور اڑانے والے بلوچستان کے عوام کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ 74سال میں پہلی بار اس موجودہ حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے جس نے ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کا حصہ 25فیصد بڑھایا ۔

انہوںنے کہا کہ وزیراعلیٰ نے کسٹم کو بارڈر تک محدود کردیا ہے اب کسٹم شہروں میں کوئی ایکشن نہیں لے سکتی انہوںنے کہا کہ آئندہ انتخابات میں ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد نہیں لانی چاہئے تھی تاہم یہ ان کا جمہوری حق ہے دعا ہے کہ معاملہ بخیر وعافیت ختم ہوجائے ۔صوبائی وزیرانجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ سندھ کے پاس بلوچستان سے کم ساحلی پٹی ہے لیکن انکا ریونیو ہم سے بہت زیادہ ہے ہم اپنے سمندر کو صحیح طرح استعمال نہیں کرتے ۔انہوںنے کہا کہ گوادر ایشیاء کے منفرد ترین پورٹس میں سے ایک ہے لیکن اس سے بھی صوبے کوفائدہ نہیں پہنچ رہاوفاق نے کبھی بھی بلوچستان کاخیال نہیں رکھاایک وقت تھا جب فنڈز کی کمی کے باعث بلوچستان اپنا بجٹ بھی پیش نہیں کرپاتا تھاہمارے پاس تنخواہوں کے پیسے نہیں تھے لیکن این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے کی مالی حالت میں بہتری آئی ہمیں آج تک ان دونوں اقدامات کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے وسائل پراختیار نہیں دیاجاتا ریکوڈک پر اگر کام ہوتا تو پاکستان کو خوشحال کرسکتے تھے اب بلوچستان کے ساحل ووسائل کا سودا نہیں کریں گے صوبے کے وسائل بروئے کار لائے جائیں تو ان سے پاکستان کابجٹ بن سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاق بلوچستان کے منصوبوں کے لئے ایلوکیشن کم رکھتا ہے جس کی وجہ سے منصوبے مکمل نہیں ہوتے بجٹ عوام پر سرمایہ کاری کا نام ہے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ عوام کو کہاں کس چیز کی ضرورت ہے بجٹ میں بہتر پلاننگ کرکے عوام کو روزگار اورامن و امان دے سکتے ہیںہمیں چین ،ایران ،ترکی سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ملکر صوبے میں صنعتیں قائم کرنی چاہئیں ہمارے پھل ،سبزیاں خراب ہوجاتی ہیں ان سے آمدن ہوسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں حکومت ایک اچھا بجٹ بنائے وفاق ایک ڈیم اورسڑک بناکر ہم پراحسان جتاتا ہے یہ ہمارا حق ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان رقبے کا 45فیصد ہے یہاں آبادی کی بجائے غربت ،رقبے اور پسماندگی کی مناسبت سے فنڈز دیئے جائیں ۔

انہوںنے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بجٹ کیوں خرچ نہیں کرپارہے خرابیوں کو دور کرنا چاہئے بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے نان ڈویلپمنٹ کو کم کرنا ہوگا ۔پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے ڈاکٹروں کی ہڑتال کا معاملہ ایوان میں اٹھاتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرہڑتال پرتھے حکومت نے ان سے مذاکرات کئے لیکن ایک بار پھر پرسوں ڈاکٹروں نے ریلی نکالی اورانہیں گرفتار کیا گیا آج بھی ڈاکٹروں کی گرفتاریاں ہوئیں مسئلہ بگڑتا جارہا ہے جب ڈاکٹروں کے کچھ نوٹیفکیشن ہوگئے اور کچھ باقی ہیں تو معاملہ کیوں گھمبیر ہورہا ہے اس موقع پر صوبائی وزیر سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مطالبے پر ہیلتھ پروفیشنل اور رسک الاونس 100فیصدبڑھا دیاگیا ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ آدھی رات کو کابینہ کا اجلاس بلاکر نوٹیفکیشن دیا جائے ۔انہوں نے کہاکہ شیخ زید ہسپتال میں ایک اضافی تنخواہ بھی دی جارہی ہے 20کروڑ روپے وظیفے کی رقم جاری کردی گئی ہے ہسپتالوں میں ضروری آلات کی فراہمی کیلئے 2ارب روپے رکھے گئے ہیںمحکمہ صحت میں بہتری کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھارہے ہیںڈاکٹروں کی ہڑتال سیاسی ایجنڈا بن گئی ہے ڈاکٹر لازمی سروس میں ہیںاگر انہوں نے سیاست کرنی ہے تو استعفیٰ دیکر الیکشن لڑیں اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سرداربابر موسیٰ خیل نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین کو حوصلے سے کام لینا چاہئے بعد ازاں انہوں نے گورنر کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اوراسمبلی کااجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔