جہد مسلسل کی داستان درویش صفت سیاستدان،خاک نشین انسان کی کہانی شیرزاد کی زبانی ۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ فروری1945ء میں ضلع کچھی کے بھاگ ناڑی کے گائوں چھلگری میں پیر بخش کے گھر متولد ہوئے۔خاندان کے دیگر افراد زمینداری سے منسلک تھے۔آپ نے ایک غریب کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم گائوں میں حاصل کی اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول بھاگ سے کیا۔مز ید تعلیم کے لئے انٹر کالج مستونگ میں داخلہ لیا۔ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا۔
زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے،1967میں کراچی میں بلوچ طالب علموں کی مشہور زمانہ تنظیم بی ایس او کی بنیاد رکھی گئی تو ڈاکٹر صاحب بی ایس او کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے ،محی الدین مری ولد غلام محمد مری ساکن اشکنہ کاریز مستونگ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
بی ایس او کی تنظیم سازی میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا مرکزی کردار رہا، بی ایس او ایک پختہ سیاسی فکر اور نوجوانوں کی ذہنی سیاسی تربیت کی ایک منظم نرسری ثابت ہوئی۔بلوچستان کی قومی جدوجہد میں شاندار کردار ادا کیا۔
بی ایس او کی تاریخ بنانے میں کئی نامور طالب علموں نے اپنی زندگی کے بہترین سال تنظیم کیلئے وقف کئے۔ان میں ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی،خیر جان بلوچ،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،شہید حبیب جالب بلوچ،شہید رازق بگٹی،خالد مینگل،خادم بنگلزئی،ڈاکٹر کہور خان بلوچ،ڈاکٹر جمال زیب جمالدینی،ڈاکٹر عمر چنال، ڈاکٹر تاج گچکی،ڈاکٹر نعمت گچکی،شہید نذر محمد شہی،مرحوم شاہ محمد عرف شاہو،محمد حنیف محمد حسنی بلوچ،جسٹس امیر الملک مینگل،محی الدین بلوچ،لعل جان بلوچ، گڈانی کے میر گوہر خان سنگھور،ماما محمد خان مینگل،خورشید جمالدینی،محمد رفیق کھوسہ،میر نذیر احمد کھوسہ،ڈاکٹر عبدالرحیم رخشانی،عبدالرحیم نا خیزئی رند،آصف جمالدینی،چیئرمین آصف سرپرہ،نذیر احمد بلوچ،میر بیزان بزنجو،عبدالرشید بزنجو،ڈاکٹر شفیع زہری،ماما غلام جان بادینی،ڈیرہ اللہ کے ڈاکٹر اعجاز لاشاری، ڈاکٹر سلیم کرد،اسلم کرد،سعید کرد،ڈاکٹر سلطان بادینی،شاہ محمد بادینی،ڈاکٹر قاسم بادینی،ڈاکٹر گل زادبادینی،محمد رفیق بزنجو،خیر جان رودینی،شہید نور الدین مینگل،سعید کرد،عبدالقادر رند،سید اختر شاہ ،چھر،عزیز محمد بگٹی،ڈاکٹر مشتاق شاہ،میر حاصل خان بزنجو،میر حسین بخش بنگلزئی،حکیم بلوچ شامل تھے۔
اس زمانہ میں عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد بزدار اور حکیم بلوچ کراچی یونیورسٹی میں کلاس فیلو تھے۔آپ نے کراچی یونیورسٹی میں M.Aپولیٹکل سائنس کے طالب علم تھے۔ اور بلوچ طلباء سیاست میں فعال تھے۔ان تمام بلوچ نوجوانوں نے جیلوں میں سزائیں کاٹیں ،روس،کابل،لندن تک جلا وطن ہوئے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ میں سب سے بڑی خوبی یہ دیکھی کہ انتہائی سادہ مزاج اور درویش صفت تھے۔سیاست کو ایوانوں اور محلات سے نکال کر عوام اور طلباء کی سطح پر لائے۔
ڈاکٹر صاحب 1991سے مذہب کی طرف کچھ زیادہ ہی راغب ہوئے۔ڈاکٹر صاحب دوست،احباب بلکہ تمام سیاسی وقبائلی شخصیات کی وفات و تعزیت پر بلا تفریق شرکت کرتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کے پائوں ہمیشہ گردش میں رہتے تھے۔میرے خیال میں طالب علم راہ نمائوں میں انہوں نے سب سے زیادہ سفر کیا۔دور دراز علاقوں کا دورہ کرتے رہتے تھے۔بلوچستان کے محسن اور راہ شون عطاء اللہ مینگل کی وفات پر اپنی کم زوری اور پیرانہ سالی کے باوجود جنازے میں شریک ہوئے اور رسم قل میں شرکت کی۔1970کے انتخابات میں قلات کچھی کی قومی اسمبلی کی نشست سے خان قلات کے شہزادے کو شکست دے کر نیپ کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ،نیپ کا ٹکٹ دلوانے میں نواب اکبر خان بگٹی کی حمایت ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھی ۔انتخابات میں نیپ کی تمام شخصیات نے ڈاکٹر صاحب کی کامیابی کے لئے اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر صاحب کے بارے میں نواب اکبر بگٹی کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر میر بزنجو کا بندہ ہے جبکہ میر بزنجو کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نواب بگٹی کے زیادہ قریب ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ وہ تمام رہنمائوں سے عاجزی اور انکساری سے ملتے تھے۔اس لئے ورکرز سے لے کر لیدڑز تک سب ڈاکٹر حئی بلوچ کا احترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے سیاسی رویئے پر تنقید اورتعریف دونوں کے رنگ غالب رہے۔ڈاکٹر پرریشہ دو انیوں کے الزامات بھی لگے مگر انہوں نے خندہ پیشانی سے برادشت کیا۔سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی،ڈاکٹر صاحب کی سیاسی زندگی میں غرور تکبر نام کی کوئی شہ نہیں تھی۔لچک برد باری انکساری غالب تھا ۔
آپ نیشنل پارٹی کے صدر رہے۔نیشنل پارٹی کی تنظیم نو میں آپ نے بھر پور کردار ادا کیا۔1994میں نیشنل پارٹی کے سینیٹر منتخب ہوئے۔آپ زمین پر بیٹھ کر اپنے لوگوں کے مسائل سنتے تھے۔سیاسی مخلص ورکروں میں شفیع محمد عرف بابے لہڑی اور حاجی ولی محمد لہڑی نے ورکروں کی سخت حالات میں بے لوث مدد کی،ڈاکٹر عبدالحئی اکثر بابے لہڑی کے ہاں قیام کرتے تھے۔بابے لہڑی اپنے وطن قوم کے لئے کوئٹہ کی سرزمین پر عظمت اور روشنی کا مینار تھے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سے ان کی طویل عرصے سے کی رفاقت تھی۔1974ء میں سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میںمیری تقرری بطور جوڈیشل آفیسر قاضی بھاگ کے طور پر ہوئی، اس زمانہ میں نیپ کی تمام لیڈر شپ حیدر سازش کیس میں حیدرآباد جیل میں اسیرزاندان تھی۔ڈاکٹر حئی بلوچ گھر چھلگری میں روپوش تھے۔مکھی دیوان جیٹھا نند،سید امیر شاہ شہید،معروف شخصیت میر عبدالحمید شاہ کی نیاز مندی ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھی۔میرا آنا جانا بھی ڈاکٹر حئی بلوچ کے ہاں تھا۔بھاگ کے زمیندار مرحوم مہر دل خان چھلگری میرے مہربان تھے۔میر اسماعیل چھلگری سے اب بھی رابطہ ہے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں میری تعیناتی رہی 1979میں بطور قاضی خضدار میںتعینات تھا۔مارشل لاء کے ذمہ داروں سے ناچاکی ہوئی کیونکہ سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بے جا مداخلت کے باعث انہیں اپنی عدالت سے باہر نکال دیا تھا۔مجھ پر الزام لگایا گیاکہ میرے میر غوث بخش بزنجو سے روابط ہیں۔اس زمانہ میں چیف جسٹس ذکاء اللہ لودھی اور رجسٹرار ملک انصار صاحب ہوا کرتے تھے۔مجھے بابائے بزنجو جسٹس ایم رشید،یوسف نسکندی،آزاد جمالدینی نے مشورہ دیا کہ بطور قاضی انصاف کے فیصلوں پر ریاست کے دبائو سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیکر آزدانہ طور پر وکالت کریں،اس میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا مشورہ بھی شامل تھا۔
یکم ستمبر1981کو خاران میں تعیناتی کے دوران سروس چھوڑ کر12اکتوبر 1981کو وکالت شروع کی۔میرے مربی اور محسن میر غوث بخش بزنجو مجھے خضدار لے گئے اور خضدار میں وکالت کرنے کی ہدایت کی۔خضدار کے ان ابتدائی ایام میں مجھے عالیجاہ غوث بخش ،آغا عبدالظاہر احمد زئی،آغا عبدالخالق احمد زئی ولد آغا سلطان ابراہیم احمد زئی کا دست شفقت اور بھر پور تعاون حاصل رہا۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سمیت جو سیاسی راہنماء خضدار آتے تو میرے چیمبر ضرور آتے۔یہ میرے لئے باعث فخر تھا۔بلوچ قلم کار، صحافی، ایڈیٹر بلوچی دنیا چاکر خان بلوچ ‘بابو شورش،نور محمد پروانہ،آزاد جمالدینی،محمد رمضان یہ سب میرے مہربان تھے۔بی این ایم کے میر عبداللہ جان محمد شہی،میر عبدالخالق لانگو اور ڈاکٹر عبدالحئی خضدار تشریف لائے اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہماری بہت سی باتوں سے آپ کا اختلاف ہے مگر آپ کم زوریوں کو برداشت کرتے ہیں اور ہمارا خیال رکھتے ہیں۔
میرے بر خوردار ڈاکٹر صاحب کے بھتیجے نادر علی ایڈووکیٹ اور ان کے فرزند چنگیز ایڈووکیٹ سے امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ والد کے نقش قدم پر چلیں۔ڈاکٹر صاحب کے دیگر عزیز و اقارب نیشنل پارٹی سے منسلک ہیںان کے بڑے بیٹے ایڈووکیٹ چنگیز بلوچ سنجیدہ اور بالغ نظر ہیں وہ اگر نیشنل پارٹی کی سیاسی ہمسفربنیںتو اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرسکتے ہیں یہ مجھے نا کو کہتے ہیں یہ ان کی تربیت ہے ۔ڈاکٹر صاحب اکثر پیدل سفر کرتے تھے بلا ا متیاز سب کے لئے قابل احترام تھے جوان وپیر کوئی بھی انہیں دیکھتے وہ ڈاکٹر صاحب کو مو ٹر سائیکل ،موٹر کار غرض کہ رکشے میں بٹھا کر انہیں ان کی منزل تک پہنچاتے۔
جب میں یہ واقعات لکھ رہا تھا کہ یہ افسوس ناک خبر ملی بلوچستان کے عظیم چشم وچراغ ،دانشور،محقق،شاعر واجہ اکبر بارکزئی لندن میں انتقال کر گئے ہیں اکبر بارکزئی صاحب بلوچ قوم کے خیر خواہ اور بلوچی ادب کے بڑے محقق اور دانشور تھے۔ان کی کمی مد توں محسوس ہوتی رہے گی عہدہ ساز علمی و ادبی شخصیت تھے۔
عہد ساز قومی لیڈر سردار عطاء اللہ مینگل کی رحلت کے یکے بعد دیگرے ڈاکٹر حئی بلوچ ،اکبر بارکزئی کی رحلت بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے نا قابل تلافی نقصان ہے۔ایسی نابغہ روزگار شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔(جاری ہے)