اگلے چند ماہ میں حکومت پاکستان، ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر شروع کررہی ہے۔ پہلے مرحلے میں چاہ بہار کی بندر گاہ سے گیس پائپ لائن کو گوادر لایا جائے گا یہ فاصلہ تقریباً اسی کلو میٹر کا ہے ۔ پاکستانی گیس کمپنیاں اس حصے کو تعمیر کریں گی اور وہی ان کے اخراجات بھی برداشت کریں گی۔ دوسرے مرحلے میں چین کی کمپنی گوادر سے نواب شاہ تک گیس پائپ لائن تعمیر کریگایہ فاصلہ تقریباً 700کلو میٹر کا ہے اس سے قبل ایران گیس فیلڈ سے لے کر بندر عباس تک اور بعد میں ساحل مکران سے چاہ بہار تک نو سو کلو میٹر کی پائپ لائن تعمیر ہوگی ۔ اس طرح توانائی کے اس بڑے ذریعے کی گزرگاہ ساحل مکران ہے ۔ جو بندر عباس سے شروع ہو کر کراچی کے قریب سے گزرے گا ۔ اس سے قبل ترکمانستان ’ افغانستان ’ پاکستان ’ انڈیا پائپ لائن کی بھی گزر گاہ گوادر کراچی تھا جس کو ایک امریکی کمپنی یونی کول تعمیر کرنا چاہتا تھا ۔ ترکمانستان ’ افغانستان اور گوادر کراچی اور بھارت اس کا راستہ تھا اس منصوبہ کو سبو تاژ کرنے کے لئے طالبان ، ان کی حکومت اور ان کے وزیروں کو استعمال کیا گیا طالبان نے گیس پائپ لائن کی تعمیر کی اجازت کے بدلے لاکھوں ملازمتیں اور دو ارب ڈالر امریکی کمپنی سے طلب کیں جس کی وجہ سے امریکی کمپنی نے منصوبہ ترک کردیا تھا اب اس کو دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے اس کے روٹ یعنی گزر گاہ سے متعلق چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چھٹہ نے انکشاف کیا کہ یہ افغانستان سے چمن کے راستے لورالائی اور پھر ملتان جائے گی۔ پہلے تو یہ روٹ تھا کہ یہ افغانستان سے چاغی ’ خاران ’ پنجگور اور گوادر تک آئے گی جو مستقبل میں توانائی کا بڑا مرکز ہوگا ۔ گوادر ساحل مکران اور کھلے سمندر میں واقع ہے ۔ بعض علاقائی ممالک یہ منصوبہ بنا رہے ہیں کہ ان کا تیل اور گیس گوادر ’ پسنی سے دنیا بھر میں فروخت ہو ۔ اس کے لئے انہوں نے گوادرپسنی تک پائپ لائن بچھانے کامنصوبہ بنایا ۔ اسی روٹ کو ریل ’ سڑک اور وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ سندھک تک پاکستان ریلوے لائن موجود ہے جس سے افغانستان سرحد صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ یہی ریلوے لائن زاہدان اور مغربی ممالک تک رسائی، تجارت اور سفر کی سہولیات فراہم کرتی ہے آج کل ایران اس کو استعمال کررہا ہے یہ مشکل نظر آتا ہے کہ گیس کی طویل ترین پائپ لائن افغانستان سے گزرے یعنی ترکمانستاسرحد سے داخل ہو اور پورے افغانستان کے خاتمے کے بعد چمن آئے ۔ یہ معاشی اور مالی طورپر قابل عمل منصوبہ نظر نہیں آتا ہے شاید یہ چیف سیکرٹری کی ذاتی رائے ہو مگر معاشی لحاظ سے بہتر روٹ گوادر یا مکران کا طویل ساحل ہے ۔
ترکمانستان اور دوسرے سرمایہ کار اس کو معاشی اور مالی لحاظ سے نظر انداز نہیں کر سکتے ساحل مکران ہی توانائی کا مرکز ہوگا ۔ دنیا کا سب سے بڑا آئل ٹرمینل یا بندر گاہ ’ گوادر اور پسنی کے درمیان سمندری علاقہ بنے گا۔ ایران گیس پائپ لائن اپنی وجوہات کی بناء پر ساحل مکران ’یعنی بندر عباس سے لے کر کراچی تک ساحلی علاقے کو استعمال کررہی ہے ۔ یہاں زمین ہموار ہے دریا اور پہاڑی سلسلے نہیں ہیں ۔ اس کی تعمیر تیز رفتاری سے ہو سکتی ہے ۔ تاہم اس کے باقاعدہ اعلان کا انتظار ہے ۔ جلد بازی میں ترکمانستان گیس پائپ لائن کی دوبارہ بحالی کا اعلان کیا گیا ہے مگر اس کی مکمل تفصیلات طے کرنا باقی ہیں ۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی اس میں شامل ہیں ۔ اس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بنک نے گوادر ’ ترکمانستان ریل اورسڑک کی تعمیر کے لئے ساڑھے گیارہ ارب ڈالر مختص بھی کردئیے تھے جس کا مقصد وسط ایشیائی ممالک کو ریل اور سڑک کے ذریعے ملانا اور ان کو ساحل مکران تک رسائی فراہم کرنا تھا چونکہ عوام دشمن قوتوں نے طالبان کو استعمال کرکے ان منصوبوں کو ناکام بنایا ۔ اب دوبارہ ان پر غور ہوسکتا ہے اور ان منصوبوں کی بحالی ممکن ہے ۔
ساحل مکران توانائی کی اصل گزر گاہ
وقتِ اشاعت : August 25 – 2015