|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2022

گزشتہ چند دنوں سے پاکستان میں سیاسی مداخلت اور عدم استحکام پر بحث چل رہی ہے حکومت اوراپوزیشن کی جانب سے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی جارہی ہے۔

بہرحال کسی بھی ملک میں بیرونی مداخلت آئین وقانون اور قومی سلامتی کے خلاف ہے بلکہ یہ ایک خطرناک عمل بھی ہے اس لیے تعلقات بہتر رکھنا اپنی جگہ مگر براہ راست دخل اندازی کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کھل کر بات کی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی کیمپ پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا۔پاکستان سب کے ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیکیورٹی ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان یوکرین بحران کے حل کے لیے سیز فائر اور ڈائیلاگ پر یقین رکھتا ہے۔

پاکستان روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے میزائل کا پاکستان میں گرنا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔پاکستان نے بھارت کے میزائل گرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت پاکستان اور دنیا کو بتائے کہ اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں؟ان کا کہناتھا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی پر یقین رکھتا ہے۔پاکستان چاہتا ہے بھارت کے ساتھ آبی تنازع بھی ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی سے حل ہوں۔

پاکستان مذاکرات پر یقین رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک کوشش جاری رہے گی۔پاکستان نے عالمی برادری سے مل کر افغانستان کی مدد کی۔ افغان عوام کی مدد کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔انکا کہنا تھا کہ یوکرین کے بحران کے باعث افغان عوام کو بھلایا نہ جائے۔پابندیاں لگانے کی بجائے افغانستان کے مثبت رویے کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔دنیا کو افغانستان کودوبارہ دہشتگردی کا مرکز بننے سے روکنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ خطے کی سیکیورٹی اور استحکام ہماری پالیسی ہے۔ پاکستان اہم اقتصادی خطے میں واقع ہے۔پاکستان خطے کے مسائل کو شراکت داری سے حل کرنے پر گامزن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ معیشت اور شہریوں کی سلامتی اہم ہے۔ شہریوں کی خوشحالی اور سلامتی ہماری ترجیح ہے۔مقاصد کے حصول کے لیے ملک کے اندر اور باہر امن کی ضرورت ہے۔خطے کو دہشتگردی، موسمیاتی تبدیلی اور غربت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے واضح طور پر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کسی کیمپ پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا اور سب کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات چاہتا ہے۔ اول روز سے ہی پاکستان نے یہی بات کی ہے کہ پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تجارتی وسفارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے اور خطے سمیت دنیا کے امن کے لیے پاکستان نے ہر بار یہ بات کہی ہے کہ وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے خاص کر افغانستان کے حوالے سے متعدد بار یہ بات کی جاچکی ہے۔

یہ بات بھی اچھی ہے کہ بھارت کے ساتھ دہائیوں سے چلتا آرہا تنازع پر بھی ڈائیلاگ کی بات ہورہی ہے تاکہ مستقبل میں پاک بھارت تعلقات بہتر ہوسکیں اور کشمیر کا جو دیرینہ مسئلہ ہے وہ اقوام متحدہ کی قرارداد اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیاجائے ،اس عمل سے دونوں ممالک قریب آئینگے اور سفارتی وتجارتی تعلقات سے دونوں ممالک کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا اور یہ آج حالات کے تقاضے ہیں کہ ہر معاملے کو طاقت کی بجائے ڈائیلاگ کے ذریعے حل کیاجائے تاکہ امن اور خوشحالی ساتھ ساتھ چل سکیں۔