|

وقتِ اشاعت :   April 5 – 2022

ڈسٹرکٹ تربت کی رہائشی رقیہ (فرضی نام) گھر والو ں سے کسی بات پر جھگڑ کر اْس نے خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی، گھر والوں نے آگ بھجا دی اور اْس کو ڈسٹرکٹ سول ہسپتال پہنچادیا، اْس کے جسم کا آدھا حصہ مکمل طور پر جھلس چکا تھا، چار دنوں تک وہ مسلسل جلن اور درد کی تکلیف سے جوجہتی رہی،کراچی جانے کے لیے اْس کے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، آخرکار اْس کی موت واقع ہوگئی،اگر ڈسٹرکٹ کیچ میں برن سینٹر ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ وہ نہ مرتی۔

ایک اور واقعہ سال 2018 میں بلوچستان کے شہر تربت میں پیش آیا جس میں گیس سیلنڈر کا دھماکہ ہوا اور اسکول بس میں سوار ننھے ننھے بچے آگ کی نظر ہوگئے، اِس دل دہلا دینے واقعے میں ایک ہی ماں کے 4 بچے دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی لپیٹ میں آگئے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اْن کو ہسپتال پہنچایا، لیکن امیر صوبہ کے غریب بچے برن سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے رہے اور کچھ بچے اِسی طرح جلے بھنے بدنوں کے ساتھ کراچی روانہ کیے گئے لیکن اْن میں سے کچھ ابلہ اور سوختہ بدن درد کی شدت کو نہ سہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
اْس وقت تربت شہر قیامت ِ صغرا کا منظر بنا ہواتھا، جلتی ہوئی کتابیں جن میں تتلیوں کی تصویریں بنی ہوئی۔ فضاء میں جلے ہوئے گوشت اور خون کی بو سے دماغ کے رگیں پھٹ رہے تھے۔ہم نے اْس وقت بہت شور مچایا، افسوس کیا، لیکن پھر جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہوا ہم لمبی تھان کر سوگئے۔ ہمارے پاس تو اْن ستم ظریفوں کے لیے صرف دلاسے کے چند بول ہی تھے۔ انتظامیہ نے شہر کے اندر ایل پی جی گیس پر باپندی لگائی دی اورمتعلقہ ڈیلرز کو شہر سے باہر بھیج دیا، یہ وہ خاص اقدام تھے، لیکن متاثرین خاندا ن اور عام عوام کا سب سے بڑ ا مطالبہ یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں برن سینٹر ہونی چاہئے اگر یہ ہوتا تو ہوسکتا ہے ہمارے بچے بچ جاتے”۔
تربت شہر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ جہاں ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال ہے۔ جس میں روزانہ کی بنیاد پر مختلف بیماریوں سے نبردآزمامریضوں کا چیک اپ کیا جاتا ہے۔ جس میں دور دراز کے مریض بھی شامل ہیں، جن میں غریب مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ڈسٹرکٹ سول ہسپتال تربت میں برن سینٹر نہیں ہے جس کی وجہ سے جلے ہوئے مریض بڑی تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جب کہ یہ سینٹر ہرشہر میں ہونے چاہیئے، لیکن اتنا ضروری ہونے کے باوجود یہ کیوں نہیں ہے، اِس کے لیے جب بات کی ڈسٹرکٹ سول ہسپتال کے سابق ایم ایس میر محمد یوسف سے تو اْنہوں نے بتایا کہ ” برن سینٹر کی اپنی ریکوارمنٹس ہوتے ہیں، برن سینٹر تو آغا خان میں بھی نہیں ہے، سول ہسپتال کراچی اور کراچی کے ایک دو اور ہسپتال میں ہے، برن سینٹرکے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہر مریض کے لیے ایک وینٹی لیٹر ہو، کیونکہ مریض کسی بھی وقت وینٹی لیٹر پر شفٹ ہوسکتا ہے۔ دوسرا یہ وینٹی لیٹر آپریٹ کرنے کے لیے عملہ ہو۔ برن سینٹرکے لیے ایک علیحدہ “آئی سی یو” کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کی ریکوارٹمنٹ زیادہ ہیں اِسی لیے یہ ابھی تک تربت میں نہیں ہے، اگر برن 30 یا 40 فیصد ہے اور کوئی آرگن متاثر نہیں ہے تو ہم اْس کو یہی پہ ٹریٹمنٹ دیتے ہیں تاکہ اْس کا برن اسکین لیول تک ٹھیک ہوجائے، اگر کوئی اندورنی عضاء متاثر ہوجائے تو ہم اْن کو کراچی شفٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی گن شاٹ کیس ہو یا کوئی اور مرض ہو تو اْس کے لیے بیٹھ کر یا لیٹ کر سفر کرنا اتنا مشکل نہیں ہوگا جتنا ایک “جلے” کے مریض کے لیے ہوگا کیونکہ نہ تو وہ بیٹھ سکتا ہے اور نہ وہ لیٹ سکتا ہے، اْن کے لیے سفر کرنا بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے، سفر کرنے کی وجہ سے بہت سے مریضوں کی موت ہو جاتی ہے۔ اِس حوالے سے ہم نے 6 بیڈ کی ایک چھوٹی سی ” آئی سی یو” خود سیٹ کی ہے، جس میں 4 وینٹی لیٹرز ہیں، چار اسٹاف ہیں جن کو ذاتی طور پر کراچی کے ہیلتھ شعبے کے دوستوں سے بات کرکے جناح ہسپتال کراچی میں ایک مہینے کی تربیت کروائی، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے یہ مکمل تربیت یافتہ ہیں کیونکہ یہ صرف آئی سی یو کی بیسک سیکھ چکے ہیں اور چار اسٹاف ہیں جب کہ اِس کے لیے کم از کم 15 اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ برن سینٹر کا قیا م ہونا سرکاری سطح کا اقدام ہے، منسٹری لیول کا ایشو ہے کیونکہ اِس کے لیے ایک قطیر رقم درکار ہوتی ہے، اِس کے لیے جدید مشینری اور اسٹاف کوتربیتدینے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ پھر صرف ایک برن سینٹر نہیں ہوگا بلکہ ایک آئی سی یو سینٹر بھی ہوگا۔ آئی سی یو سینٹر کی بلڈنگ تو بن گئی ہے لیکن اْس کے سازو سامان بہت مہنگے ہیں اِس لیے ابھی تک نہیں پہنچے ہیں۔ عمارت مکمل تیار نہیں ہے ایک دو ماہ میں تیار ہوجائے گی۔ اگر آئی سی یو تیار ہوجائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ” برن سینٹر” کی طرف جارہے ہیں۔ اْنہوں کے کہا کہ ہم نے جو چھوٹے پیمانے پہ 6 بیڈ کی آئی سی یو شروع کی تھی اْس نے ہمیں بہت فائدہ پہنچایا، لیکن اْس میں چار اسٹاف جس میں دو نرس اور دو ڈسپنسرز شامل ہیں وہ ناکافی ہیں کیونکہ ہر ایک مریض کے لیے ایک اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے چائے برن کا مریض ہو یا کوئی اور مرض کا مریض ہو اْن کو کیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اسکن اسپیشلسٹ نہیں ہے، ایچ آر کا ایشو ہے۔ہمیں اس کے لیے باقاعدہ ایک ‘پی سی ون’ تیار کرنی پڑے گی۔ ہمیں ضرورت کی ساری ساز و سامان میسر ہوں،اْنہوں نے کہا کہ برن سینٹر اور دیگر ایشوز کے لیے حکام بالا کو درخواستیں بھی دی ہیں لیکن فلحال کوئی اقدامات نہیں کیے گئے”۔
کیونکہ یہ تربت کی بہت بڑی ضرورت ہے اِس مسلئے کو ہنگامی بنیادوں پہ حل ہوجانا چاہیئے۔ ان سے انسانی صحت اور انسانی جان وابسطہ ہیں، اِس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اِس حوالے سے ایڈووکیٹ شکیل احمد زامرانی جو بلوچستان ہائی کورٹ بار کے سنیئر نائب صدر بھی ہیں اْنہوں نے دوسال قبل ڈسٹرکٹ سول ہسپتال تربت میں صحت کے دیگر سہولیات سمیت برن سینٹر کی فقدان کے خلاف ‘بلوچستان ہائی کورٹ’ میں درخواست جمع کرائی ہے۔تربت جوکہ ہیڈکوارٹر ہے اَس سمیت سارے مکران میں کوئی بھی برن سینٹر نہیں ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ 2018میں ڈسٹرکٹ تربت میں گیس سلینڈر دھماکہ ہوا تھاجس میں اسکول کے بچے سمیت بہت سے لوگ آگ کی زد میں آگئے تھے، ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے معصوم بچے اور دیگر زخمی تڑپ رہے تھے، معصوم بچوں کی والدین اور عام شہری کی بے بسی دیکھ کر عدالت جانے کا فیصلہ کیا، اِس حوالے سے درخواست بلوچستان ہائی کورٹ میں داخل کیا جو عدالت نے منظور کرلیا اور اس کی سماعت ہورہی ہے۔ اْنہوں نے کہا حکومت کا جواب تو فلحال پازیٹو ہے اِ س حوالے سے لیکن کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ہمیں برن یونٹ کی ضرورت ہے۔ میرا علاقے بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، اپنے علاقے کی عوام کو صحت سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مختلف درخوستیں جمع کرائی ہیں جن میں کچھ کا فیصلہ ہوگیا اور کچھ زیر سماعت ہیں، لیکن یہ(برن سینٹر) سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ یہ صحت سے متعلق ہے جس میں کوئی کمپرومائز کیا نہیں جاسکتا ہے۔ اِس آئینی درخواست کے جواب میں حکومت نے نہ ہاں میں جواب دیا ہے اور نہ ناں میں۔ کیونکہ قانونی طور پر حکومتی موقف کمزور ہے۔ اْن کو کوئی نہ کوئی جواب تو دینا ہی ہے۔ عدالت جانے سے ہمارے کافی سارے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ایم آئی آر، لیبارٹری، میڈیسن کے مسائل ایک حد تک حل ہوگئے ہیں۔ بلڈنگ کا مسلۂ کافی حد تک حل ہوگیا”۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد اور اْس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے، اِس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے آئین میں درج ہے کہ ‘ صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے’۔ لیکن بات یہاں معیار سے بالا تر ہوکر انسانی زندگیوں تک پہنچ گئی ہے جو اہم اور بیش قیمتی ہیں۔ پتا نہیں کب تک ہمارے حکا م بالا کو اْن کی اہمیت کا اندازہوگا؟۔