سیاسی مباحثوں سے ہمیں فرصت ہی نہیں ملتا کہ ہم معاشرے میں رونماہونے والی دلسوز واقعات کا تذکرہ کریں اور ان کے وجوہات بیان کریں۔ سنجیدہ معاملات کا ذکر کرنا جب محال ہو تو واقعات میں حددرجہ اضافہ ہوجاتاہے۔ کہیں دور دور تک ان افسوسناک واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے۔
حالیہ دنوں آواران میں غیرت کے نام پر ایک لڑکی کو بے دردی سے چار گولیوں سے بھون دیا تھا مرا نہیں تو گلے میں چھری سے وار کرکے ماردیا گیا۔ گزشتہ دنوں پنچگور میں باپ بیٹے نے ملکر بیٹی کو تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ پتوکی میں اشرف پاپڑ بھیچنے میرج ہال گیا تو وہاں ان سے جھگڑا کرکے اسے ماردیا گیا اسکی لاش پر مکھیاں بھنبھنارہی تھیں جبکہ دوسری جانب شادی کی تقریب شان و شوکت سے جاری تھی۔ اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں یہ کیا کچھ ہورہا ہے؟ غیرت کسے کہتے ہیں؟ لفظ غیرت سے ناآشنا لوگوں نے غیرت کاڈونگ رچا رکھاہے۔ اسلام میں کہیں ایسی غیرت کا تذکرہ نہیں کیاگیا جس کا عملی مظاہرہ اس بے حس معاشرے میں کیا جارہا ہے۔ اصل غیرت اپنے بہن بیٹوں کے جائز خواہشات پورے کرنے کا نام ہے جس میں عزت لپیٹے انہیں تحفے میں دیا جاتا ہے۔ کتنا ظالم ہے یہ معاشرے خاموش رہنے کا حکم دیتی ہے اور پھر نہ بولنے پر ہمیشہ کے لئے خاموش کراتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں میں اظہار رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہیں بولنے نہیں دیا جاتا نہ انہیں سناجاتاہے۔ بلوچستان میں اس طرح کے دلسوز واقعات آئے روز رونما ہورہی ہیں جس سے مین اسٹریم میڈیا نے کبھی کوریج دینا گوارا نہیں کیا ہے۔
عدم برداشت، خانہ جنگی، ہاہمی رقابت کے باعث کئی لوگ موت کے بھینٹ چڑجاتے ہیں۔ جاگیردانہ نظام میں ایسے واقعات کے نتائج ایک اور ایسے واقعے کی صورت میں نکلتا ہے۔ کیونکہ اس پر کھل کر بات کرنا محال ہوتا ہے ذرا سی ہٹ دھرمی کی صورت میں جان گنوا بیٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے دانشور کم ہی ان معاملات پر قلم اٹھاتے ہیں، اس طاقتور طبقے کے سامنے بھلا ایک قلم کار کیسے ٹک سکتا ہے۔ اس لئے معاشرے کے ان افسوسناک واقعات جن کا تعلق جاگیردارانہ طبقہ ہائے فکر سے ہے قلم کار، دانشور، سیاسی پارٹیاں، بے بس انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاصا پیش رفت نہیں ہوتی۔ غربت، بے روزگاری، جہالت ان واقعات کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ بلوچستان میں ماضی میں ایسے انسانیت سوز واقعات کم ہی ہوئے ہیں لیکن اب یہ ہر روز کا معاملہ بن چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بڑھتی بے روزگاری ہے جو عدم برداشت کا سبب بنتی ہے، جہالت جس میں نہ کوئی سر نا دھڑ والا معاملہ بن جاتا ہے۔ یعنی ایک جاہل شخص کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اگر تعلیم پر مزید کام نہیں ہوا تو اس طرح کے واقعات روز کا معاملہ بن چکے ہونگے۔