ملک کا دانشور اور عالم طبقہ اس وقت حیران رہ گیا کہ محکمہ صنعت کے ایک منشی نے بلوچی اکیڈمی ‘ براہوئی اکیڈمی ‘ پشتو اکیڈمی اور ہزارگی اکیڈمی پر پابندی لگا دی ۔ ان کو دہشت گرد تنظیموں کے برابر لاکھڑا کیا ۔ سپریم کورٹ کا یہ حکم تھا کہ این جی اوز یا غیر سرکاری اداروں کے فنڈز اور آمدنی کے ذرائع کی چھان بین کی جائے ۔ حکومت بلوچستان کے دفتر میں بیٹھے منشی صاحب نے ان پر حقیقی معنوں میں پابندی لگا دی ۔
ان کا حکم نامہ جاری ہوا کہ متعلقہ اداروں نے وہ تمام ضروری دستاویزات اور آمدنی کے ذرائع یا آڈٹ رپورٹ ان کے حضور میں حاضر ہو کر پیش نہیں کیے تھے ۔ لہذا ان تمام پر پابندیاں عائد کردی گئیں ہیں اور ان کا رجسٹریشن منسوخ کردیا گیا ہے ۔ یہ حکم نامہ سارے اخبارات میں سرخیوں کے ساتھ چھپا ۔ ان سے کوئی پوچھے بلوچی اکیڈمی بلوچ دانشوروں ‘ شاعروں ‘ ادیبوں کا ایک مثالی ادارہ ہے ۔
جو 1950 کی دہائی میں قائم ہوا ۔ اکثر بلوچ دانشور اس کے رکن رہے ۔ ان کے مقاصد میں بلوچی زبان اور بلوچی ثقافت کی ترقی ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ اختر مینگل نے بلوچی اکیڈمی کی خدمات کے اعترا ف میں اس کو شہر کے وسط میں ایک قطعہ زمین الاٹ کیا تھا اور اس پر بلوچی اکیڈمی کی شاندار اور خوبصورت عمارت کھڑی ہے ۔ اس سال بلوچی اکیڈمی نے نامور ادیبوں اور شاعروں کے 38کتابیں شائع کیں ۔ ایک اور بڑا کارنامہ بلوچی ڈکشنری کی اشاعت ہے ۔ جس پر سینکڑوں دانشوروں ‘ ادیبوں اور شاعروں نے کام کیا اور نو سال کی محنت کے بعد شائع کیا اس میں حکومت بلوچستان نے ایک کثیر رقم عطیہ میں بھی دی تھی ۔ ابھی تک بلوچی اکیڈمی سینکڑوں نایاب کتابیں چھاپ چکی ہے ۔
سال میں ایک سے زائد بین الاقوامی معیار کے سیمینار منعقد کرتی ہے جس میں دنیا بھر کے بلوچ شاعر ادیب کے علاوہ غیر ملکی مہمان شریک ہوتے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ حکومت بلوچستان کا ایک ادنیٰ کارندہ تمام حقائق کی چھان بین سے قبل اپنا نادر شاہی حکم جاری کردیتا ہے اور بلوچی اکیڈمی اور دیگر اکیڈمی پر پابندی لگاتا ہے اور اس کا رجسٹریشن منسوخ کرتا ہے ۔ ۔ اگر حکومت کو کسی بھی ادارے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنی ہیں تو سرکاری اہلکار موقع محل کا معائنہ کرتے ہیں اور اس کے اہم ترین عہدے داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔ پاکستان بھر کے نامور بلوچ دانشور اس اکیڈمی کے رکن ہیں ۔
ان میں اعلیٰ ترین افسران ‘ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور مشہور اخبارات مدیر بھی شامل ہیں ۔یہ فیصلہ صرف منشی اور فدوی کی حکمرانی کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک کے حساس ترین معاملات کو یہی منشی اور فدوی حضرات دیکھتے ہیں ۔ ایک بار میر غوث بخش مرحوم ‘ سابق گورنر بلوچستان کو پولیس نے ون یونٹ توڑنے کی تحریک میں حصہ لینے پر گرفتار کیا ۔ بزنجو صاحب کی گرفتاری کے وقت انقلابی شاعر میر گل خان نصیر موقع پر موجود تھے ۔ بعد میں اس کو بھی گرفتار کیاگیا وجہ پوچھی گئی کہ انقلابی شاعر میر گل خان نصیر کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے اس پر فدوی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ بزنجو کی گرفتاری پر گل خان نصیر کے تیور بدل گئے تھے اور یہ اندازہ لگایا گیا کہ وہ کوئی خطر ناک کام کرنے جارہا ہے ۔ اس لئے اس کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ اب ہمارے ملک میں منشی کی حکمرانی جو دفاتر کے باہر کے واقعات اور ماحول سے واقف نہیں اور نہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صرف دفتر کے اندرمکھی پر مکھی مارتے ہیں ان میں 11گریڈسے لے کر 22گریڈ کے اہلکار شامل ہیں ۔ سب کا رویہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے ۔ البتہ وہ افسران جو فیلڈ میں ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ۔ اور وہ زیادہ مناسب فیصلے کرتے ہیں اگر یہ کام کسی فیلڈ افسر کے سپرد ہوتا تو اتنی بڑی غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اور حکومت کی سبکی نہیں ہوتی ۔