|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2015

سوزن رائس ‘ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان کا دورہ مکمل کر لیا ۔ اس دورے کے دوران انہوں نے سرتاج عزیز جو پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں ، کے علاوہ وزیراعظم اور فوج کے سربراہ سے ملاقاتیں کیں اور دو طرفہ معاملات اور خطے کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا ۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے پاکستان آنے کا مقصد کیا تھا اور وہ پاکستان سے کن معاملات پر براہ راست معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے البتہ پاکستان کو ایک سنہری موقع ضرور ہاتھ آگیا کہ وہ بعض معاملات امریکی حکام کے گوش گزار ضرور کر سکے، ان میں پاکستان ‘ بھارت تعلقات اور دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ‘ افغان حکومت کا جارحانہ رویہ اور بے بنیاد الزامات ‘ کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش اور دوسرے دو طرفہ معاملات زیربحث آئے ۔ امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ بند کردی اور امریکی حکام نے یہ وجہ بتائی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے دوران حقانی نیٹ ورک اور ان کے جنگجوؤں کے خلاف کوئی کاررو انہیں ہوئی۔ اس بات کی تصدیق امریکی وزارت دفاع نے نہیں کی کہ فوجی آپریشن حقانی نیٹ ورک کے خلاف ہوا ہے جب تک امریکی وزارت دفاع اس بات کی تصدیق نہیں کرے گا اگلے سال کے لئے کولیشن سپورٹ فنڈ پاکستان کو نہیں ملے گا ۔ رواں سال کو لیشن سپورٹ فنڈ کی مدد میں 33کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم پاکستان کو مل چکی ہے ۔ تاہم امریکی حکام نے یہ اشارے ضرور دئیے ہیں کہ آئندہ سال سے یہ فنڈ پاکستان کو ملنے بند ہوجائیں گے ۔ وجہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کرنا حالانکہ فوجی کارروائی اب اختتام پذیر ہے اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا صفایا ہوگیا ہے بشمول حقانی نیٹ ورک، ان میں اکثر مارے گئے یا افغانستان فرار ہوگئے ہیں ۔پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات جلد سے جلد شروع ہوں تاکہ افغانستان میں امن بحال ہو بلکہ دیرپا امن بحال ہو، موجودہ صورت حال میں پاکستان کو بھارت کے جارحانہ رویے پر تشویش ہے ۔ آئے دن بھارتی افواج پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کرتے رہتے ہیں اور خاص طورپر فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ امریکی مشیر کو بھارت کی جارحانہ کارروائیوں سے متعلق وزیراعظم پاکستان ‘ سرتاج عزیز اور فوج کے سربراہ نے آگاہ کیا۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ شاید امریکی قومی سلامتی کے مشیر اسی بات کا اندازہ لگانے پاکستان آئے ہیں ۔ امریکی تشویش ظاہر ہے کیونکہ دونوں ہمسایہ ممالک ایٹمی قوت ہیں ا ور ان کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے دنیا کے امن کو خطرہ رہتا ہے ۔ اس لئے امریکی مشیر اور صدر اوبامہ کے قابل بھروسہ اہلکار خود پاکستان آئے ہیں اور اس کا اندازہ لگانے آئے ہیں کہ زمینی صورت حال کیا ہے ۔ اس بات کے اشارے نہیں ملے ہیں کہ امریکا نے پاکستان میں یمن اور گلف کی صورت پر پاکستان سے کسی قسم کی امداد طلب کی ہے کہ یمن تنازعہ کا پر امن اور دیر پا حل تلاش کیاجائے ۔پاکستان یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد کارکن نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان یمن کے ہوائی حملوں میں شامل ہے قومی اسمبلی کے متفقہ قرارداد اور فیصلے کے بعد پاکستان یمن کے تنازعہ میں غیر جانبدار ہے ۔