جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعتیں یا تو قدامت پسندی اور یا پروگیسیو پسندی کے تحت اپنے منشور پر عمل کرتی ہیں۔ لہٰذا سوسائٹی بھی قدامت پسندی اور ترقی پسندی کے نظریے میں تقسیم ہو جاتی ہے، اور انتخاب کے موقع پر یہ نظریاتی کشمکش پوری طرح ابھر کرسامنے آتی ہے۔
اسی طرح اگر ہم پاکستان کی تاریخ کے ابتداء دور کو دیکھیں تو یہی سیاسی کشمکش نظر آتی ہے۔خاص طورسے 1970 کے انتخابات میں سیاسی نظریات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جو افراد ترقی پسند نظریے کے حامی تھے انہوں نے خاص طور پہ آمرانہ حکومتوں کی مزاحمت کی۔ یہ لوگ جیلوں میں اسیر رہے۔ شاہی قلعے میں اذیت بر داشت کی۔ ضیاء الحق کے دور میں سرِ عام کوڑے کھائے اور جلاوطن ہوئے لیکن پاکستان کی سیاست میں اس وقت تبدیلی آئی جب ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کے بعد جمہوریت آئی مگر عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور لوگوں میں تبدیلی نہیں آئی۔
اس نے نا امیدی اور مایوسی کے جذبات کو پیدا کیا اور تبدیلی کی خواہش میں عوام نے جو قربانیاں دی تھیں ان کی ناکامی نے لوگوں کے سیاسی فکر کو بدل دیا۔ لہٰذا اب پاکستان کی سیاست میں نظریات کی کوئی کشمکش نہیں۔ سیاسی جماعتیں نہ تو قدامت پرستی کی نمائندگی کرتی ہیں اور نہ ترقی پسندی کی۔ یہ خاندانوں کی موروثی جاگیریں بن کر رہ گئیں ہیں۔ ان کے کارکن ان جماعتوں کی حمایت کسی نظریے کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ ایک طرح سے یہ ان کی تنخواہ اور ملازم ہیں۔
اس تبدیلی اور سیاسی عمل نے پاکستان میں سیاست کو مسخ کر کے فرسودہ بنا دیا ہے۔اس صورتحال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام عوام کیلئے کوئی خوشخبری لے کر نہیں آئے گی لیکن یہ بھی نظر آتا ہے کہ یہ غلامی اپنی کمزوریوں اور بد عنوانیوں کے بوجھ سے ڈوب رہا ہے، تو اس صورت میں تبدیلی کا آنا اور کسی ایک نظام کا ابھرنا لازم ہو جاتا ہے۔