|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2022

نئی حکومت نے وفاقی کابینہ تشکیل دیدی جس کے حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا کہ موجودہ کابینہ میں تاخیر اندرون خانہ من پسند وزارتوں پر اتحادیوں کے درمیان شدید ترین اختلافات ہیں اس لیے وفاقی کابینہ نہیں بن رہی ہے کہ سب کو کس طرح سے خوش رکھا جائے۔ بلآخر موجودہ حکومت اس عمل سے نکل گئی مگر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جو بڑے چیلنجز اور بحرانات کی صورت میں ہیں، اتنا آسان نہیں کہ چند ماہ کے دوران یہ حل ہوجائیں

اس کے لیے مستقل پالیسی کی ضرورت ہے جبکہ چند مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات اور فیصلے کرنے ہونگے جن میں مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ، بلز میں ریلیف یہ وہ مسائل ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں لوگوں کودرپیش ہیں اس لیے انہیں سامنے رکھنا بہت ضروری ہے اور یہ خود موجودہ حکومت کے اتحادیوں پر مستقبل میں سیاسی حوالے سے مثبت اثرات مرتب کرینگے کیونکہ ایک سال کے بعد لازمی انتخابات کی طرف جانا ہوگا اور اس کے لیے کارکردگی اولین شرط ہوگی ۔دوسرا معاملہ مبینہ خط کا ہے جس کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ تمام حقائق کو عوام کے سامنے لائینگے اب تک اس حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے اس ابہام کوبھی ختم کرنا ہوگا تاکہ سازش اور مداخلت کے جس بیانیہ کی بنیاد پر عوام کو حکومتی اتحاد اور آئینی اداروں کے خلاف اکسایا جارہا ہے وہ دم توڑ جائے عوام اس کے منتظر ہیں امید ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس اہم قومی سلامتی مسئلے کی تہہ تک جائینگے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی کے بعد اتحاد وجود میں آیا، حکومتی اتحاد ذاتی مفادات سے بالاتر اور عوامی مفاد کیلئے ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت پر نکتہ چینی کی جارہی ہے، ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری ہے، کابینہ کی تشکیل دیر سے ہوئی،تجربہ کار افراد کابینہ کا حصہ ہیں جنہوں نے قربانیاں دیں، سیاسی اتحاد ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر عوام کی خدمت کرے گا،توقع ہے باہمی مشاورت سے تمام چیلنجز پر قابو پا لیں گے، موجودہ صورتحال میںچیلنج بھی اور کام کرنے کا موقع بھی ہے۔مشکلات ضرور آئیں گی مگر دیکھنا ہوگا مسائل کیسے حل کرنے ہیں، خلوص اور عزم کے ساتھ کام کیا جائے تو کسی بھی چیلنج پر قابو پایا جاسکتا ہے۔بجلی اور ایندھن نہ ہونے کے باعث سینکڑوں کارخانے بند پڑے ہیں، پاکستان میں بہتری لانا ہے، کابینہ کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، کابینہ کو لوڈشیڈنگ کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے گا اور معیشت کی بحالی کے لیے مزید وسائل پیدا کرنا ہوں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ انتخابات میں اپنے اپنے منشور کے مطابق عوام سے بات کریں گے، ہمیں قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے ہیں، بلوچستان کے عوام کے مسائل پربھرپورتوجہ دینا ہوگی، دیگرصوبوں کے مسائل پربھی درد دل کے ساتھ توجہ دینا ہوگی۔

آپ کے سامنے مہنگائی، لوڈشیڈنگ سمیت کئی چیلنجزہیں، عدم اعتماد کی تحریک کا آئینی راستہ اپناتے ہوئے کامیاب ہوئے ہیں، چینی کہاوت ہے جہاں چیلنج ہے وہاں موقع بھی ہے،ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، زہریلے پروپیگنڈے کا حقائق کی بنیاد پر جواب دینا ہوگا۔چار سال اپوزیشن کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا گیا، ہمارے بچوں کا آخری بال بھی قرضوں میں ڈوب چکا ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں کارخانے بند ہیں، ساڑھے 3سال میں جوکرپشن عروج پرتھی اسے ختم کرنا ہے، ہم نے ڈوبتی کشتی کوکنارے لگانا ہے۔آج اللہ نے آپ کو بڑی عزت سے نوازا ہے، کابینہ اراکین نے مجھے گائیڈ کرنا ہے، مشورے اچھے اور تلخ بھی ہوں گے.مجھے احساس رہتا ہے کہ سفید پوش طبقے کی مشکلات کم کرنے کے لیے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں، بدقسمتی سے ہمیں قومی خزانہ جس حالت میں ملا ہے وہ میری خواہش کو پورا کرنے کے قابل نہیں، پھر بھی ماہِ رمضان کے دوران اپنے تنگدست اہلِ وطن کو مایوس نہیں ہونے دیں گے،

مشکلات کو کچھ کم کرنے کے لیے پنجاب میں 10 کلو آٹے کی قیمت کم کردی، یقین دلاتا ہوں کہ معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے ہم دن رات کام کر رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف خود چیلنجز کا اعتراف کررہے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرارہے ہیں عوام کو بھی یہی امید ہے کہ جو پچھلی حکومت نے اعلانات اور دعوے کئے اور پھر یوٹرن لیا وہی عمل موجودہ حکومت نہیں دہرائے گی بلکہ معیشت کو بہتر کرنے کے ساتھ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے متحرک ہوگی تاکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ کار پاکستان میںآکر سرمایہ کاری کریں جبکہ پاکستانی مصنوعات کو بھی عالمی منڈی میں رسائی مل سکے جس سے ملکی معیشت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ صنعتیں آباد ہونگی بلکہ مزید اس میںاضافہ ہوگا اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔