|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2022

آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا جمہوری ریاستوں کی جڑوں کی بنیاد ہی قانون اور آئین ہے اگر اس کی خلاف ورزی کسی بھی طرح کی جائے تو سماج انارکی کی طرف جاتا ہے جس کی بیسیوئوں مثالیں دنیا کی ہماری سامنے موجود ہیں قانون سب پر مکمل طور پر لاگو ہوتا ہے اور اسی کے اندر رہتے ہوئے اسے کام کرنا ہے ،قانون صرف کمزور نہیں بلکہ طاقتورپر بھی لاگو ہوتا ہے

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قانون اور آئین کو ہر وقت مذاق بنایاگیا ہے جس کی دھجیاں بکھیری گئیں اور نتیجہ آج سامنے ہے کہ ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی معاشرہ ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ قانون اور آئین کو طاقتور طبقہ نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا بعض شخصیات نے تو اپنے عہدوں کاناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے گروہی وذاتی مفادات کے لیے قانون وآئین کو استعمال کیا مگر تاریخ آج بھی انہیں اچھے ناموں سے یاد نہیں کرتی۔

اب بھی موقع ہے کہ سب کو قانون اور آئین کے ماتحت رہ کر اپنا کام کرنا چاہئے وگرنہ انتشار اور انارکی ملک کو بندگلی میں دھکیل دے گا، پہلے سے ہی ملک کوشدید ترین سیاسی، معاشی بحران اور چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ خطے کو بھی بہت سی چیلنجز کا سامنا ہے اس وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہے۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے بطور پارلیمنٹیریئنز ان پرسن عدالت کے رو برو پیش ہو کر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ صدارتی ریفرنس کے بعد آئینی عہدیداروں نے آئین کی خلاف ورزی کی اور جمہوری اداروں پر بدنیتی تنقید کے دو طرح کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدنیتی پر مبنی تنقید سے یا ملک فاشزم کی طرف جاتا ہے یا پھر سویت یونین بنتا ہے۔ آئین کے لیے کھڑے ہونے پر اداروں کے خلاف مہم چلی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہے اور آئین کو ماننے والے جب تک ہیں تنقید سے فرق نہیں پڑتا۔ عدالت کے دروازے ناقدین کے لیے بھی کھلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا کام سب کے ساتھ انصاف کرنا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔ قربانیاں دے کر بھی پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اداروں کا ساتھ دیا ہے لیکن کوئی ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچے ملک کی خدمت کرتے رہیں گے اور قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے یہ واضح پیغام ہے کہ کوئی بھی غلط پروپیگنڈہ کرے یا اس سوچ میں مبتلا ہو کہ وہ دباؤ کے ذریعے اداروں سے اپنے من پسند فیصلے کروائینگے تو یہ باب اب بند ہوچکی ہے جس کی ایک واضح مثال مبینہ خط کی وجہ سے عدم اعتماد کی تحریک پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تھی اور اس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ حقائق کی بنیاد پر سنایا۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن کے خلاف یہ فیصلہ آیا وہ اس بات پر بضد ہیں کہ ان کے ساتھ غلط ہوا خط کو کیوں نہیں دیکھا گیا، کیا خط فریق نے خود جاکر دکھائی کہ اس میں کونسا خطرناک مواد موجود ہے جس سے ملکی سالمیت داؤ پر لگ چکی ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ جس سازش اور مداخلت کا ذکرپی ٹی آئی کی جانب سے کیاجارہا ہے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین اسی ملک امریکہ کے وفد سے ملاقات بھی کررہے ہیں تو کیا اس پر سازش اور مداخلت کے متعلق گفت وشنید کی گئی، اپنے خدشات سے ان کو آگاہ کیا ،محض گمراہ کن اور سطحی پروپیگنڈہ کرنے سے جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کیاجاسکتا۔