نائب وفاقی وزیر برقیات مختصر دورے پر کوئٹہ تشریف لائے اور صوبائی رہنماؤں سے ملاقات کی ۔ وہ اپنے ساتھ صرف ایک خبر لائے کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں نو بجلی گھروں میں سے صرف پانچ کو وفاقی حکومت تیل فراہم کرے گی ۔ 67سال کے بعد بھی ان شہروں کو قومی گرڈ سے بجلی فراہم نہ ہو سکی اور نہ ہی ان علاقوں کو بجلی ملنے کی امید ہے ۔ عابد شیر علی وفاقی حکومت کے گرجدار وزیر ہیں ، موصوف کے پی کے‘ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو بجلی چور سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں اس بار پھر انہوں نے دعویٰ کیا کہ زمیندار حضرات 60کے وی کے موٹر استعمال کررہے ہیں حالانکہ ان کو تیس کے وی کے موٹر استعمال کرنے کی اجازت ہے اس بار انہوں نے یہ دھمکی نہیں دی کہ ان کے موٹر ضبط کیے جائیں گے یا ان کی بجلی کاٹ دی جائے گی ۔ یہ دھمکی نہ دینے پر بعض لوگ حیران ہوئے ۔ وزیراعلیٰ نے بھی ایک اعلان فرما دیا کہ جو بل ادا نہیں کرے گا ان کو بجلی نہیں ملے گی مگر یہاں سوال ان کا ہے جو بجلی کے بل باقاعدگی سے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے بروقت اداکررہے ہیں ان کی جائز شکایات کی بات نہیں ہوئی۔ کوئٹہ کے بعض فیڈرز پر پانچ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے صرف بلوچ علاقوں خصوصاً سریاب کے علاقے میں کیسکو کی مہربانی سے سات گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔ یہ امتیازی رویہ شایدحکومت یا حکومتی اداروں کی مرضی سے ہے۔ اس علاقے کے صارفین کو مزید اذیتیں دینے کے لئے آئے دن بجلی کا بریک ڈاؤن معمول کی بات ہے دن میں درجن بار سے زیادہ بجلی کی فراوانی میں خلل ڈالی جاتی ہے ۔ اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے لوگوں کے کروڑوں روپے کی مشینری اور تنصیبات کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ بجلی کی ترسیل میں استحکام نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ پاور سپلائی میں کمی بیشی سے یہ نقصانات ہورہے ہیں کیسکو اور وفاقی حکومت کے اعلیٰ ترین حکام ان تمام باتوں سے لا علم ہیں کہ صارفین کو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ بلوچستان 2400میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے اور اس کو صرف 700میگا واٹ دیا جارہا ہے اعلیٰ ترین اختیاردار بڑی بے شرمی سے اس بات کا 67سالوں بعد اعتراف کررہے ہیں کہ بلوچستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام 700میگا واٹ سے زیادہ لوڈبرداشت نہیں کر سکتا ۔ لہذا بلوچستان کے لوگ تاریکی میں رہیں اور قیامت تک ان 700 میگا واٹ بجلی ملتی رہے گی ۔ باقی 1700میگا واٹ بجلی کراچی اور پنجاب کے لئے ہے ۔ یعنی بلوچستان میں بجلی کی ضروریات کبھی پوری نہیں ہوسکتیں’ اس پر صوبائی حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں 48گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔
بلوچستان چونکہ سب سے بڑا لاوارث صوبہ ہے اس کی بجلی بھی پنجاب اور کراچی کے لئے ہے فی الحال نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو 24گھنٹے مسلسل بجلی کی فراہمی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت نے یہ بات وفاق سے کہی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ عابد شیر علی سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ان کو صرف اچھی اچھی باتیں بتائیں کڑوی باتیں لکھنے کے لئے ہم اخبار نویس بیٹھے ہیں جو یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بلوچستان کے نو بڑے شہروں کو قومی گرڈسے ملائیں اور سب کو بجلی دیں ۔ان بجلی گھروں میں تیل کی فراوانی کرپشن کا بڑا ذریعہ ہیں ۔ اکثر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل استعمال کرکے اور سرکاری قیمت حکومت سے وصول کرتے ہیں مکران کو بجلی ایران سے مل رہی ہے ۔ ایران میں لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ پاور بریک ڈاؤن کا بھی کوئی تصور نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کیسکو کے متعصب افسران لوڈشیڈنگ جان بوجھ کر کرتے اور لوگوں کو اذتیں پہنچاتے ہیں کہ لاہور اور اسلام آباد میں تو لوڈشیڈنگ ہورہی ہے مکر ان کو بجلی ایران سے نہیں مل رہی ہے ۔
بلوچستان کو تاریکی میں رکھا جائے گا
وقتِ اشاعت : September 7 – 2015