کوئٹہ پاکستان کا منفرد شہر ہے جہاں پر قانون کی خلاف ورزی کو شان اور فخر کے طورپرلیا جا تا ہے قانون کی خلاف ورزی پر بعض لوگ خوش ہوتے ہیں وجہ اس کی جاہلیت ہے ۔قانون کی خلاف ورزی کوئی اچھی بات نہیں ہے اس لئے شہر میں ٹریفک کی بے ہنگم چال جاری ہے ۔ کوئی ڈرائیور ٹریفک کے قوانین کا پاس نہیں رکھتا جب ٹریفک پولیس ان کا چالان کرتی ہے تو رونے دھونے پر اتر آتے ہیں ۔زیادہ تر کوئٹہ پولیس پیدل ہے اور اس کے پاس کم سے کم موٹر سائیکل اور گاڑیاں ہیں اس لئے گاڑی میں سوار بد تمیز لوگ گالیاں بکتے تیزی سے بھاگ جاتے ہیں اورپیدل سپاہی کا خون کھول جاتا ہے کہ اس نے ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کرانے کا اشارہ دیا اور بد تہذیب لوگ گالیاں بکتے چلے گئے ۔ اکثر اوقات وزراء ‘ سرداروں اور سیاسی رہنماؤں کے ذاتی محافظ پولیس سے الجھتے نظر آتے ہیں اور حکومت مظلوم پولیس کی بجائے مغرور اور متکبر رہنماؤں ‘ سرداروں ‘ سردار زادوں اور وزیروں کی طرفدار نظر آتی ہے الٹا ڈانٹ پولیس کو دی جاتی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر ان طاقتور لوگوں کو کیوں روکا گیا ۔ قانون سب کے لئے برابر نہیں ہے ۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ متکبر رہنماؤں اور وزراء کے خلاف کبھی کارروائی ہوئی ہو ۔ ایک مرتبہ اسپیکر بلوچستان نے مسلح افراد کی اسمبلی کے احاطے میں داخلے پابندی لگائی تھی ایک طاقتو ر اور متکبر وزیر کے محافظ اسلحہ سمیت زبردستی گھس آئے اور اسپیکر کے احکامات کی خلاف ورزی کی جس پر طاقتور شخص کی چاپلوسی اور خوشامدی کی گئی اور پولیس کے افسران جنہوں نے قانون یا حکم پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی ان کو سرعام ذلیل کیا گیا ۔ یہ دہرا معیار ہے ۔ پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگائی ہے ۔ خلا ف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا، ان کو عدالتوں سے سزائیں بھی دی گئیں۔ اب لاہور اورپنجاب کے دوسرے شہروں میں اسلحہ کی نمائش بہت ہی کم ہوتی ہے کیونکہ حکم نامہ پر بلا امتیاز عمل درآمد کرایا گیا ۔ لیکن یہاں تو اس کا تصور ہی نہیں ،بنیادی اور روایتی طورپر بلوچستان کا وزیراعلیٰ اقلیتی جماعت کا ہوتاہے اور اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لئے دوسرے ایم پی اے حضرات اور سیاسی پارٹیوں کا محتاج ہوتا ہے ۔ اس لئے بلوچستان کے تمام وزرائے اعلیٰ سوائے سردار عطاء اللہ مینگل کے سب کو اپنے ہی اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑا ۔ سردار اختر مینگل کے معاملے میں تو پوری کابینہ ‘ سوائے چند وزیروں کے ‘ اپوزیشن کے ساتھ مل گئی اور ان کا تختہ الٹ دیا گیا ۔ بہر حال ایم پی ایز ‘ سیاسی رہنماء، قبائلی عمائدین زبردست قوت کے حامل ہیں ۔لہذا پولیس کے ایک ادنیٰ افسر کے مقابلے میں حاکم اعلیٰ ایم پی اے اور وزیر کی ہی حمایت کرے گا ۔ لہذا گاڑیوں کے کالے شیشے اور اسلحہ کی زبردست نمائش ، عوام اور غریب لوگوں یا عورتوں اور بچوں کو ہراساں کرنے کا عمل جاری رہے گا۔ شہر میں قانون کی بالادستی کی بات ہی چھوڑ دیں ۔ بلوچستان سول سیکرٹریٹ اقتدار اعلیٰ کا منبع ہے وہاں پر کم سے کم سو سے زائد گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کی ملیں گی جس پر وزیر یا ایم پی اے لکھا ہوا ہے اور اسی طرح سینکڑوں ذاتی مسلح محافظین سیکرٹریٹ میں نظر آئیں گے ۔
ٹریفک کے قوانین پر عمل کرائیں
وقتِ اشاعت : September 7 – 2015