|

وقتِ اشاعت :   April 23 – 2022

گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد کے قریب واقع بلوچستان کے ضلع چاغی میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زمیاد (ایرانی ساختہ گاڑی جسے مقامی سطح پر زمباد کہتے ہیں) چلانے والا ڈرائیور حمید اللہ سر پر گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گیا۔ بد قسمت حمید اللہ ان ہزاروں غریب ڈرائیوروں میں سے ایک تھا جو ریاست کی روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے روزانہ اپنی جان پر کھیل کر گھر کا چولھا جلانے کے لیے بارڈر پر نام نہاد ’غیرقانونی‘ کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔

حمید اللہ کی نعش کو آر سی ڈی شاہراہ پر رکھ کر شدید احتجاج کیا گیا جبکہ نوکنڈی اور دالبندین میں اس واقعے کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہوئے۔ نوکنڈی میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ کے باہر احتجاج اس وقت زیادہ متشدد ہوا جب مظاہرین نے کیمپ پر پتھراؤ کیا اور آگے لگانے کی کوشش کی۔ فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر حکومت پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانا شروع کی ہے۔ جس کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے بلوچوں کا واحد ذریعہ روزگار (سرحدی علاقوں میں تیل اور اشیائے خورد و نوش کا نام نہاد’غیرقانونی‘ کاروبار) ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ صوبے کے بے پناہ وسائل کے باوجود لوگ بے روزگاری اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان وسائل سے صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور عالمی سامراجی لٹیروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے جو یہاں قومی جبر اور استحصال کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
ایران اور افغانستان کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کے پاس روزگار کا ذریعہ پیٹرول، ڈیزل اور اشیائے خورد و نوش کی ’غیر قانونی‘ تجارت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ماضی میں یہ کام نسبتاً آسانی سے ہوتا تھا کیونکہ سرحدوں پر اتنی سختیاں نہیں تھیں۔ یہ تجارت عام طور پر ایرانی ساختہ گاڑیوں کے ذریعے ہوتی ہے جن پر سامان لادا جاتا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے دہشت گرد گروہوں کی آمد و رفت اور پر تشدد کاروائیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں سکیورٹی کے نام پر سختیاں بڑھ گئی ہیں اور تجارتی آمد و رفت پر بے تحاشا قدغنیں لگی ہیں۔ کئی سالوں سے افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے جس سے کاروبار مزید مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ چیک پوسٹوں اور چھان بین کے چکر میں گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ان سرحدی چیک پوسٹوں کے آس پاس میلوں تک کوئی آبادی نہیں۔ فقط ہر طرف تپتے صحرا کا منظر ہے۔ چیک پوسٹوں سے کلیئرنس ملنے کے انتظار میں کئی کئی دن لگ جاتے ہیں اور بے چارے ڈرائیوروں کو تپتے صحرا میں انتظار کرنا پڑتا ہے اور اسی اثنا میں ان کے پاس موجود قلیل خوراک بھی ختم ہوجاتی ہے۔چند دن پہلے حمید اللہ نامی ڈرائیور کو کسی چیک پوسٹ پر رکنے کا اشارہ کیا گیا تووہ نہیں رکا۔ اس پر فائرنگ کی گئی اور وہ سر پر گولی لگنے سے مر گیا۔ رپورٹس کے مطابق سینکڑوں ڈرائیوروں کی گاڑیوں کے پیٹرول کو سکیورٹی اہلکاروں نے خالی کیا یا ان کے ریڈی ایٹر میں ریت ڈال کر ڈرائیوروں کو پیدل واپس جانے کو کہا گیا۔ کئی ڈرائیور تپتے صحراؤں میں میلوں پیدل سفر کر کے نوکنڈی پہنچے تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے باقی ساتھیوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ صحراؤں میں کہاں بھٹک گئے ہوں گے۔ پچھلے سال اسی علاقے میں بارڈر کی بندش اور چیک پوسٹوں پر سختی کی وجہ سے متعدد ڈرائیور اپنی گاڑیوں کے ہمراہ سرحد پار ایران میں رہ گئے اور انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ صحرا میں بھوک اور پیاس کے عالم میں بھٹکتے ہوئے بالآخر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بلوچستان کے ان سرحدی علاقوں میں بد ترین حالات میں مجبوراً یہ غیر قانونی کام کرنے والے محنت کشوں کی حالت مشرق وسطیٰ میں آباد کْردوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ ایرانی کردستان میں آباد کْرد بھی تقریباً اسی طرح کے معاشی جبر کا شکار ہیں جہاں وہ ترکی، شام اور عراق کی سرحدوں پر اسی طرز کا کاروبار یا سمگلنگ کرتے ہیں جسے کولبری کہتے ہیں۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد و خواتین اس کاروبار میں شامل ہیں جو اپنی پیٹھ پر مختلف اشیا لاد کر سنگلاخ برف پوش پہاڑوں پر چلتے ہوئے یہ اشیا ترکی اور شام تک پہنچاتے ہیں جہاں ان ملکوں کے بارڈر سکیورٹی اہلکار ان پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں۔ کئی افراد مر جاتے ہیں۔ لیکن کرد علاقوں میں بے روزگاری سے تنگ یہ افراد موت کی بھی پروا نہیں کرتے۔
ضلع چاغی میں ہی ریکو دک کا علاقہ واقع ہے جہاں کاپر اور سونے کے وسیع ذخائر ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق ریکو دک میں دنیا کا پانچواں بڑا سونے کا ذخیرہ ہے۔ اسی طرح سیندک بھی اسی ضلع کا حصہ ہے جہاں سونے اور کاپر کی مائننگ کا ایک بہت بڑا منصوبہ چل رہا ہے۔ لیکن سونے اور کاپر کے ان ذخائر کے ثمرات آج تک مقامی افراد کو نہیں مل سکے۔ چند مقامی افراد کو اگر ان منصوبوں میں روزگار ملا بھی تو وہ بد ترین حالات اور انتہائی قلیل اجرتوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان قیمتی دھاتوں کے منصوبوں کے ثمرات مقامی بیوروکریسی، حکومتی اہلکاروں اور ملٹی نیشنل سامراجی کمپنیوں کو ہی ملے۔ اسی طرح بلوچستان کے دیگر علاقوں میں تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ صوبہ پسماندگی اور غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض کسی خطے میں معدنی وسائل کا ہونا کافی نہیں بلکہ یہ وسائل کس کی ملکیت میں ہیں اور وہاں حاوی ملکیتی رشتے کیا ہیں یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ منافع خوری اور نجی ملکیت کے نظام میں یہ وسائل صرف ایک اقلیتی طبقے کی دولت میں اضافے اور خوشحالی کا باعث بنتے ہیں اور وسیع تر آبادی یا تو یکسر محروم رہتی ہے یا سامراجی لوٹ مار میں محض خام مال ثابت ہوتی ہے۔
دوسری طرف سکیورٹی فورسز کی ان ظالمانہ کاروائیوں اور روزگار کی بندش کے خلاف ہونے والے پر تشدد احتجاج سماج میں موجودہ حالات کے خلاف پائے جانے والے شدید عوامی غم و غصے کی غمازی کرتے ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر ناپید ہے۔ روزگار کے مواقع سوائے تیل اور اشیائے خورد و نوش کی غیرقانونی تجارت کے کچھ بھی نہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات اپنے انگریز پیش روؤں کی مانند اسی نو آبادیاتی ذہنیت کے مالک ہیں جو محکوم قوموں کے علاقوں کو اپنی نوآبادیات سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔اپنی تاریخی نااہلی کی وجہ سے یہ حکمران ملک کے بڑے شہروں میں اب تک کوئی خاطرخواہ ترقی اور انسانی زندگی فراہم نہیں کرسکے تو یہاں کی بات ہی الگ ہے۔ جس طرح یورپی سامراجیوں نے اپنے بیشتر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات افریقہ میں اپنی نوآبادیات میں کیے، بالکل اسی طرگ چاغی وہی علاوہ ہے جہاں 1998ء میں پاکستان نے اپنے پہلے ایٹمی تجربات کیے جن کی تابکاری سے آج بھی یہ علاقہ جوجھ رہا ہے۔
جہاں بلوچستان میں قومی جبر و استحصال پر تشدد انداز میں جاری ہے وہاں اس کے خلاف بلوچ حریت پسندوں کی طویل جدوجہد بھی رہی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں سے اس جبر کے خلاف مسلح جدوجہد کی بھی ایک روایت رہی ہے لیکن قومی استحصال کے خلاف بلوچ تحریک اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے آج ایک بلند تر مقام پر پہنچی ہے۔ پچھلے چند سالوں سے بلوچ نوجوانوں میں ایک نئی سیاسی ہلچل اور بیداری نے جنم لیا ہے جنہوں نے ایک طرف سے پیٹی بورژوا قوم پرست جماعتوں کی مفاد پرستی کو مسترد کیا ہے تو دوسری طرف قومی جبر کے خلاف جدوجہد کے مقدمے کو زیادہ ریڈیکل انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سیاسی بیداری میں بلوچ خواتین ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس سے ماضی کے برعکس پاکستان کے دیگر شہروں میں بلوچستان میں ہونے والے قومی جبر کے حوالے سے نہ صرف آگاہی بڑھی ہے بلکہ وہاں کے نوجوانوں میں حمایت بھی پیدا ہوئی ہے۔ اس سیاسی جدوجہد کے دور رس اثرات پڑیں گے۔ پاکستانی سماج اس وقت ایک گہری سیاسی اتھل پتھل سے گزر رہا ہے جس سے محنت کش طبقہ بہت سے اہم نتائج اخذ کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ داری کے گہرے نامیاتی بحران سے پاکستانی ریاست کا خلفشار مزید بڑھ رہا ہے۔ یہ بحران اب کم نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا اور نسل انسان کو اسی طرح تباہی و بربادی کی طرف دھکیلتا جائے گا۔ اس پورے خطے کے محکوموں اور مظلوموں کی ایک مشترکہ تحریک ہی اس استحصالی سرمایہ دارانہ و سامراجی نظام کا خاتمہ کر کے ذرائع پیداوار کی مشترکہ ملکیت کی بنیاد پر نیا نظام قائم کرسکتی ہے جو خطے کے تمام تر معدنی و پیداواری وسائل کو محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت میں لا کر ان کی خوشحالی اور بلند معیار زندگی کی ضمانت بنے گی۔
(بشکریہ۔ Struggle.pk)