افغانستان میں بدامنی کی نئی لہر سر اٹھانے لگی ہے جس کا پہلے سے ہی خدشہ تھا کہ افغانستان میں اشتراکی حکومت کے بغیر استحکام نہیں آسکتا جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پررہ کر افغانستان کے مستقبل کی پالیسی کے حوالے سے حکمت عملی نہیں بنائینگے اور امریکہ نے بھی دوحہ مذاکرات اور مستقبل کے افغانستان کے حوالے سے طالبان کے علاوہ کسی کو اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی انہیں اس عمل کا حصہ بنایا گوکہ افغانستان میں امریکن نواز حکومت تھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ غیر موثر حکمران کے طور پر ایک کٹھ پتلی حکومت چلارہے تھے تمام تر پالیسی امریکہ کی تھی۔
اچانک سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلاء پر پہلے سے ہی تحفظات اور خانہ جنگی کے خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا جو اب سامنے آرہے ہیں ۔ایک بار پھر کچھ ٹھہرائو کے بعد افغانستان میں دہشتگردی کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ گزشتہ روز افغانستان کے شہر قندوزکی مسجد میں بم دھماکہ ہوا جس میں 33 افراد جاں بحق جبکہ 43 زخمی ہو گئے۔ طالبان حکام نے دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بم دھماکہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہوا۔ قبل ازیں افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے 3 دھماکوں کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 65 زخمی ہو گئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پہلا دھماکہ افغانستان کے شہر مزار شریف کی مسجد میں ہوا، دوسرے واقعے میں افغان صوبے ننگر ہارمیں سڑک کنارے نصب بم پھٹ گیا۔ جلال آباد میں دھماکے کے نتیجے میں 4 سکیورٹی اہلکار جاں بحق اور ایک زخمی ہوا، افغان دارالحکومت کابل میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں 2 بچے زخمی ہو گئے۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے علاوہ بھی دیگر فورسز موجود ہیں جو ان واردات کے ذریعے اپنی موجودگی سمیت طاقت کو ظاہر کررہے
ہیں اس عمل کو عالمی دنیا سنجیدگی سے لے اور افغانستان میں امن اور خوشحالی کے لئے نئی حکمت عملی اور پالیسی بنانے کے حوالے سے کام کرے جس میں طالبان سمیت افغانستان میں موجود تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لائے، ساتھ ہی پاکستان کو اس میں شامل کرے کیونکہ پاکستان اول روز سے یہ کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں امن کے بغیر خطے میں استحکام نہیں آسکتا لہذا اس پر سنجیدگی سے سوچا جائے اور باقاعدہ ایک میکنزم مستقل بنیادوں پر ترتیب دی جائے۔ امید ہے کہ کوشش سے افغانستان میں بہتری آسکتی ہے وگرنہ یہ سلسلہ طول پکڑے گا اور افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کی طرف جائے گا جو انسانی بحران کا باعث تو بنے گا ہی ساتھ ہی عالمی امن کیلئے بھی چیلنجز پیدا ہونگے۔