کوئٹہ: سینئر سیاستدان و سابق سنیٹر نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ صوبے کی محرومیوں کی اصل وجہ وسائل کی لوٹ مار اور استحصال ہے امیر ترین صوبے کے لوگوں کو ہمسایہ ملک کے وسائل سے اپنا چولہا جلانے پر مجبور کیا گیا ریکوڈک پر سودے بازی ہوئی مگر سیاسی جماعتوں نے پر اسرار خاموشی اختیار کی بلوچستان کے لوگوں کو حق چاہئے خیرت نہیں کوئٹہ کے حلقہ 265کے نتائج کے خلاف چار سال میں بھی فیصلہ نہ آنا اسی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔
نئی حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اسی فرسودہ نظام کے ساتھ چلے گی یا اس میں تبدیلی لائے گی سیٹلرز کو بلوچستانی بنانے کی کوشش کی مگر ہماری جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں ۔یہ بات انہوںنے پیر کی شام سراوان ہائوس کوئٹہ میںمختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ افطار ڈنر سے سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد سابق صوبائی وزیر حاجی اسماعیل گجر بی یو جے کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ سول سیکرٹریٹ اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر عبدالمالک کاکڑ میر محمد الفت رمضان ہزارہ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لشکری رئیسانی نے چاغی کے واقعات کو غربت ،بے روزگاری ،استحصال وسائل کی لوٹ مار کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے وسائل لوٹنے والوں نے وسائل سے غنی صوبے کے لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کے وسائل سے اپنے گھر کا چو لہا جلائیں ۔
انہوںنے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات پر تو احتجاج کیا مگر ریکودک کے سودے پر تمام سیاسی جماعتوں بشمول وہ جماعتیں جو پارلیمنٹ میں موجود ہیں پراسرار طور پر خاموش رہیں صوبے کے وسائل بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بروئے کار لائے جاتے تو بلوچستان کے لوگوںکو ایران کے وسائل سے اپنے گھر کا چولہاجلانے کیضرورت نہ پڑتی مگر یہاں اکثر سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں اور وہ ان واقعات پر اپنی سیاسی دکانداری چمکائیںاگر سیاسی جماعتیں بلوچستان کے لوگوں وسائل اور مستقبل کا دفاع کرتے ہوئے اپنے وسائل پر احتجاج کرنا چاہتے تھا ۔انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے لوگ اپنا حق مانگتے ہیں بھیک نہیں مانگ رہے اور اس حق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری تعداد قومی اسمبلی میں باقی صوبوں سے کم ہے اگر قومی اسمبلی میں ہماری تعداد کم ہے تو سینٹ میں تو ہماری تعداد دیگر صوبوں کے برابر ہے کیا وہاں موجود بائیس سینیٹرز میں سے کوئی ایک بھی بلوچستان کے عوام کا نمائندہ ہے بلوچستان کے لوگ ان بائیس سینیٹرز کا نام تک نہیں جانتے کیوں کہ یہاں سینیٹرز اور رکن اسمبلی منتخب ہونے کا معیار صوبے کے مفادات ، مظالم ، ناانصافیوں پر خاموش ہونا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ملکی میڈیا اور جلسوں میں عدالتی نظام پر سوالات تو اٹھائے جارہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان بھی عدالتوں پر تنقید کررہے ہیں مگر عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کی بجائے انہوںنے اپنے دور اقتدار میں اس نظام کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا اورکوئٹہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 پر بلوچستان ہائیکورٹ کے دوبارہ انتخابات کرانے کے احکامات کے باوجود پارلیمان کو تین سال تک اسٹے پر چلایا گیا ۔ انہوںنے کہا کہ کوئٹہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 کے انتخابی نتائج کو ڈی آر او نے تبدیل کیاجس کیخلاف ہم نے اپنے ووٹر کے حق کے دفاع کیلئے عدالت کے دروازے پر دستک دی اس کیس کا فیصلہ ایک سو بیس دن میں ہونا چائیے تھا مگر چار سال بعد بھی اس کا فیصلہ نہ ہونے کا مطلب عدالت پر تنقید کرنے والے گزشتہ سسٹم میں خود کو ایڈجسٹ کرکے میرے حلقے کے لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بنے اس کے باوجود کہ ہم نے بار بار عدالتوں سے استدعا کی کہ اس کیس کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے ۔
انہوںنے کہاکہ موجود حکومت کو بھی فیصلہ کرنا چائیے کہ آیا وہ اس نظام میں ایڈ جسٹ ہوگی یا اس نظام میں تبدیلی لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئٹہ کے سیٹلرز پر سیٹلر کی لگی چھاپ کو ہٹاکر انہیں بلوچستانی بنانے کی کوشش کی مگر افسوس ہم اس مقصد میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں جس شہر میں ہم رہ رہے ہیں اس کو ماضی میں باغوں اور چشموں کا شہر کہا جاتا تھاضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کو محبت ، احترام ،اتفاق اور تعصب سے بالا تر ہوکر دوبارہ کوئٹہ کو خوشیوں کا گہوارہ بنائیں، انہوںنے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میںاصولوں کا تعین کیا گیا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان تین اصلوں کا تعین کس نے کیا ہے کہ سیاست اگر جھوٹ کا نام نہیں بلکہ ، لوگوں کی عزت وقار آئندہ نسلوں کیلئے پالیساں بنانے کا نام ہے ، سیاست میں حرف آخرسیاسی اصول ہیں یہاںیہ فیصلہ ہونا چائیے استحصال پر مبنی نظام کے خاتمے کیلئے ہر شخص اپنا کردار ادا کرئیگا۔ سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کوئٹہ کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں لٹل پیرس کہلانے والا شہر اب گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے یہاں جسے بھی موقع ملا اس نے شہر کی حالت بہتر بنانے کے بجائے اسے مزید ابتری کی جانب دھکیلا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہاں سیاسی کارکنوں کو پہل کرتے ہوئے شہر کے مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھنا ہوگا ۔ یہ شہر ہمارے آبائو اجداد کا ہے اس کو مزید لاوارث نہیں چھوڑ سکتے ، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اس گھر کو بہتر اور یہاں کے لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری لانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ تقریب سے سابق صوبائی وزیر اسماعیل گجر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سراوان ہائوس کو یہ اعزاز ہے کہ اس گھر نے کوئٹہ میں آباد تمام اقوام کو یکجا کرنے میں ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے انہوں نے کہاکہ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ اصولوں پر مبنی فیصلے کئے ہیں کبھی ان اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کے اصول صوبے کی اجتماعی ترقی خوشحالی اور حقوق رہے ہیں اور اسکے لئے وہ تنہا جدوجہد کرتے رہیں انہوں نے کہاکہ کوئٹہ کے عوام نے ہمیشہ نوابزادہ لشکری رئیسانی کے ہر کال پر لبیک کہتے ہوئے انکے شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی یو جے کے جنرل سیکرٹری منظور بلو چ نے کہاکہ سراوان ہائوس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ہر سال یہاں آباد اقوام کو یکجا کرتی ہے انہوں نے کہاکہ کوئٹہ اور بلوچستان کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں ان سے ہم سب نے ملکر نمٹنا ہوگا انہوں نے کہاکہ جہاں دیگر شعبوں کو مسائل درپیش ہیں وہیں صحافتی شعبہ بھی مسائل سے دوچار ہے صحافیوں کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور اس میں مزید شدت آرہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہریوں میں ان کے حقوق سے متعلق آگاہی اجاگر کی جائے جب شہری اپنے حقوق سے آگاہ ہونگے تو مسائل بھی حل ہونگے۔ سول سیکرٹریٹ اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر عبدالمالک کاکڑ نے کہاکہ نوابزادہ لشکری رئیسانی اور انکے آبائواجداد کی یہ روایت رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ یہاں کی اقوام کو اکٹھا کر کے آپسی اتحاد اور اتفاق کو فروغ دیا ہے جس کی آج بھی ہمیں اشد ضرورت ہے ۔ تقریب سے رمضان ہزارہ میر محمد الفت و دیگر نے بھی خطاب کیا۔