|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2022

وزیراعظم شہبازشریف گزشتہ روز 13 رکنی وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے 3 روزہ سرکاری دورے پر مدینہ منورہ پہنچے۔وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، وفاقی وزراء بلاول بھٹو زرداری، شاہ زین بگٹی، چوہدری سالک حسین،خواجہ آصف، مفتاح اسماعیل، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف اور ایم این اے محسن داوڑ شامل ہیں، وفد میں وزیراعظم شہباز شریف کے پرسنل اسٹاف کے 4 لوگ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

جب وزیر اعظم اور ان کا وفد روضہ رسول ؐپر حاضری دینے پہنچے تو مسجد نبوی کے احاطے میں کچھ افراد نے نعرہ بازی شروع کردی جبکہ کچھ افراد مریم اورنگزیب اور شازین بگٹی کو گھیرتے ہوئے ان کے خلاف چور ،چورکے نعرے لگا تے ہوئے ویڈیوز بھی بنارہے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کے موقع پر مسجد نبوی میں بعض افراد کی نعرہ بازی کو مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس حرکت کو قابل مذمت قراردیا ہے۔

اس واقعے نے ایک بات واضح کردی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت خود اس طرح کا ماحول بنانے جارہی ہے کہ ایک جنگی ماحول پیدا ہو چاہے ملک یا بیرون ممالک ہو، لوگ دست و گریباں ہو ں،انتشار اور انارکی کی کیفیت پیدا ہو اور یہ ثابت اور باور کرایا جائے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوا کوئی اور جماعت پاکستانی عوام کے لئے قابل قبول نہیں دیگر سب چور اور ڈاکو ہیں،وہ ایک فرشتہ صفت شخصیت کے مالک، نجات دہندہ ہیں جو حاضر عہد کے مجاہد ہیں۔

عمران خان کی تقاریر اور بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ” میں ” سے آگے کچھ نہیں۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت چلی گئی ہے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہوئے ماحول کو خراب کیا جارہا ہے سب سے بھیانک منظر گزشتہ روز مقدس مقام پر دیکھا گیا جو جماعت ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے اور اسلام کی سربلندی کے لیے خود کو سپہ سالار اور مجاہدثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہاہے مگر اس عمل کے بعدجو انہیں تھوڑی بہت ہمدردیاں حاصل تھیں وہ بھی اب آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی ہیں ۔دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جس طرح کا رویہ پی ٹی آئی سیاسی حوالے سے اپنارہی ہے اس کا ردعمل بھی اسی طرح اب ملنے لگا ہے۔ اسلام آباد ہوٹل میں حکومتی اراکین کے ساتھ بدتمیزی اور گالم گلوچ دیکھنے کو ملا اسی طرح سابق قومی اسمبلی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر حملے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

اگر اس روش کو فوری طور ترک نہ کیا گیا تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دوسرے فریق کے کارکنان پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ یہی سب کچھ کرینگے اور اس سے ملک کی بدنامی ہوگی ۔ضروری تو یہ ہے کہ ان منفی سیاسی رویوں کی حوصلہ شکنی کی جائے مگر مزید انہیں بڑھاوا دیا جارہا ہے جو آگے چل کر گلی محلوں تک پہنچ جائے گی مگر اس کا بھاری نقصان خود پی ٹی آئی اٹھائے گی۔ آئندہ انتخابات میں مہم کے دوران بدتر حالات پیدا ہونگے ۔خدارا ،بردباری کا مظاہرہ کیا جائے وگرنہ ان منفی سیاسی رویوں کے نتائج آگے چل کر جمہوری روایات کو ختم کردیں گے جو کسی کے مفاد اور مقاصد کو پورا نہیں کرے گا بلکہ مزید گھمبیر شکل اختیار کرے گا۔