بلدیاتی انتخابات دراصل جمہوریت اور سیاست کی بنیادی اکائی ہیں اور یہی بلدیاتی نظام ہی سے عوامی فلاح وبہود کی ترقی خوشحالی اور شہروں کی ترقی ممکن ہے بلاشبہ بلدیاتی نظام سے چیئرمینز وائس چیئرمینز اور کونسلران منتخب ہوکر اپنے اپنے یونین کونسلز اور وارڈ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹی میں جدوجہد اور آواز بلند کرتے ہیں اور اسی لئے انہیں جمہوریت کا بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے۔
بلوچستان میں دو اضلاع کوئٹہ اور لسبیلا کے سوا باقی تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا گمسان کارن سج چکا ہے اور بلدیاتی اکھاڑے میں علاقائی پہلوانوں سمیت منسٹرز ایم پی ایز سابق اراکین اسمبلی سمیت قبائلی شخصیات بھر پور انداز میں شرکت کر رہے ہیں جوکہ یقینا انتخابی کامیابی کیلئے عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے اپنے تئیں جتن میں مصروف عمل ہیں بلوچستان کے ان تیس اضلاع میں 838 یونین کونسلز 50 میونسپل کمیٹیاں اور سات میونسپل کارپوریشن بنائے گئے ہیں موجودہ بلدیاتی ایکٹ میں یونین کونسل میں وارڈ کی سطح پر انتخابات کرائیں جا رہے بعد ازاں یہ وارڈز کیکونسلراں 33 فیصد خواتین 5فیصد کسان و ورکر اور اقلیت کا انتخاب کریں گے اور پھر یہی کونسلران یونین کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے یونین چیئرمین ڈسٹرکٹ کا ممبر ہوگا جبکہ یونین کونسل کا وائس چیئرمیں تحصیل کونسل کا ممبر ہوگا اور بعد ازاں یہی ممبران ڈسٹرکٹ کونسل اور تحصیل کونسل کا باقاعدہ انتخاب کریں گے۔
بلوچستان کے سات میونسپل کارپوریشن میں وارڈز کی تفصیلات درج ذیل ہیں یعنی ہر میونسپل کارپورشن میں کتنے وارڈز بنائے گئے ہیں۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے خضدارکارپوریشن کے 41 وارڈز اوستہ محمد کارپوریشن کے 25 وارڈز پشین کارپوریشن کے 34 وارڈز تربت کارپوریشن کے 52 وارڈز چمن کارپوریشن کے 35 وارڈز ڈیرہ اللہ یار کارپوریشن کے 28 وارڈ جبکہ حب میونسپل کارپورشن کی حلقہ بندیاں نہ ہونے کے باعث الیکشن کمیشن نے انتخابات نہ کرانے کا اعلان کر چکا ہے۔ جبکہ نصیرآباد ضلع کے اکلوتے میونسپل کمیٹی ڈیرہ مراد جمالی کے وارڈز سوائے تربت میونسپل کارپورشن کے سب سے زیادہ ہیں کہیں وارڈ ہزاروں کی آبادی پر بنائے گئے ہیں تو کہیں سینکڑوں کی آبادی پر وارڈز بنائے گئے ہیں ایسے دس سے باری وارًز ہیں جن کی تعداد انتہائی کم رکھی گئی ہے ایسے وارڈز میں سو یا زائد ووٹ لینے والا خوش قسمت امیدوار بآسانی کامیاب ہو سکے گا۔
الیکشن کمیشن نصیرآباد اور ضلعی انتظامیہ کی اس طرح کی اقدام کو نصیرآباد کی اپوزیشن کی جانب سے خاموشی سے قبول کرنا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کے مقررہ تاریخوں پر مذکورہ حلقہ بندیوں پر اعتراض نہ کرنا دراصل اپوزیشن کی سیاست کی پستی اور نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ ضلع نصیرآباد اور میونسپل کمیٹی ڈیرہ مراد جمالی میں حذب اقتدار کی موثر پلاننگ اور اپنی مرضی ومنشاء سے حلقہ بندیاں کروانا ان کی سیاسی کامیابی و کامرانی ہے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے اعتراضات کے تاریخوں پر اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی دراصل دال میں کالا ہونے کے مترادف ہے۔ لیکن اب عین انتخابات اور نامزدگی فارم کے موقع پر اپوزیشن کو ہوش آنا بھی سیاست کا ایک جزو ہے اگر پہلے ہی اپوزیشن قیادت میر محمد صادق عمرانی میر شوکت بنگلزئی میر بابو محمد امین عمرانی میر عبدالماجد ابڑو میر نظام الدین لہڑی سمیت نیشنل پارٹی بی این پی مینگل بی این پی عوامی و دیگر اپوزیشن اسی طرح متحرک ہوتی تو یقینا ڈیرہ مراد جمالی شہر اور ضلع نصیرآباد کی حلقہ بندیاں میرٹ پر ہوتی تو آج اپوزیشن گلہ شگوہ کرنے کا موقع نہ ملتا جب اپوزیشن ٹھنڈے کمروں اور ڈرائنگ روم کی سیاست کریگی تو پھر اسی طرح وہ انتخابی میدان اور عوامی حمایت سے دور ہوتے رہیں گے لوکل گورنمنٹ کے انتخابی میدان میں یقینا عوام گراس روٹ لیول پر ہی جوش وخروش سے شرکت کرتی رہتی ہے اور بلدیاتی انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت سے انتخابی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہی عوامی حمایت کا مظہر ہوتا ہے۔
نصیرآباد میں بلاشبہ حذب اقتدار کے میر عبدالغفور لہڑی حاجی محمد خان لہڑی اور میر سکندر خان نے بہتر پلاننگ اور انتظامیہ کے مثبے تعاون سے اپنی من پسند اور اپنی پسندیدہ امیدواروں کو کامیاب کرانے کیلئے اپنی پسند کے حلقے بنا کر بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی صف بندی کر لی ہے اب اپوزیشن اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کر رہی ہے کہ رٹرینگ آفسیران نے اپوزیشن کے امیدواروں کے فارمز مسترد کرکے ہمیں انتخابی اکھاڑے سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اپوزیشن ان ناانصافیوں پر عدالت سے رجوع کر رہے ہیں تاہم پی پی پی کے مرکزی سینٹرل کمیٹی کے ممبر سابق صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے بلوچستان ہائیکورٹ میں ڈسٹرکٹ کونسل نصیرآباد اور میونسپل کمیٹی ڈیرہ مراد جمالی کے مزکورہ حلقہ بندیوں کے خلاف رٹ پیٹیشن دائر کر دی ہے اور مذکورہ حلقہ بندیوں کو انتخابی قوانین کے مطابق اور میرٹ پر از سر نو بنا کر پھر انتخابات کرانے کی اپیل کردی ہے۔ اب دیکھتیں ہے کہ عدالت اس پیٹیشن پر کیا فیصلہ دیتے ہیں کیا از سر نو حلقہ بندی کرانے کا حکم دیتے ہیں یا پھر انتخابی عمل کو جاری رکھنے کے احکامات دیتے ہیں اگر انتخابات وقت مقررہ پر ہوتے ہیں تو بلوچستان عوامی پارٹی کی کامیابی اکثرت سے ہو سکتی ہے کیونکہ حذب اختلاف کی عدم پلاننگ ہی ان کی کامیابی کی مظہر ہوسکتی ہے۔
تاہم اپوزیشن ضلع میں وسیع پیمانے پر اتحاد کرکے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے حذب اقتدار کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے دراصل اپوزیشن کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اپوزیشن اسی طرح الگ الگ پلیٹ فارمز سے بلدیاتی اکھاڑے کے پہلوان بننے کی کوشش کی تو یقینا شکست ان کا مقدر بن سکتی ہے تاہم انتخابات میں ابھی تک کافی وقت ہے اپوزیشن سرجوڑ کر انتخابی میدان کا جائزہ لے سکتی ہے اور انتخابی بازی پلٹ بھی سکتی ہے جوکہ بعید از قیاس ہے۔