|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2022

لوکل گورنمنٹ( مقامی حکومت) یابنیادی جمہوریت یعنی بلدیاتی سسٹم کو تمام ادارہ جات کے ساتھ منسلک کرکے اسے بنیادی نمائندگی اور بنیادی جمہوریت کے طور پر لاگو کیا گیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم مقامی حکومتی نظام کی خصوصیات پر مشتمل ہے۔ بلدیاتی نظام یا مقامی حکومت کا ڈھانچہ حکومت کے تیسرے درجے کی تشکیل کو نمایاں کرتا ہے، جیسا کہ پہلی اور دوسری وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہلائی جاتی ہیں۔

آئین پاکستان کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی سرگرمیاں منتخب نمائندوں کے ذریعے مقامی سطح پر چلائی جائیں گی۔ اسی طرح لوکل گورنمنٹ کے دائرہ کار میں تمام وہ بنیادی مسائل اور معاملات آتے ہیں جو ایک عام آدمی کو روزمرہ میں درپیش ہیں۔ روزمرہ زندگی میں بنیادی ضروریات جن میں پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی کا بندبست ، کچرے کو ٹھکانے لگانا ،صحت و تعلیم ، سڑکیں اور ٹاؤن پلاننگ شامل ہیں۔تاہم کسی بھی مہذب معاشرے میں زندگی کی بنیادی سہولیات اور تمام خدمات لوکل سطح پر سرانجام دی جاتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ تمام کام بلدیاتی نظام کے توسط سے کئے جاتے ہیں۔شہروں کے آس پاس دیہی علاقوں کو سہولیات پہنچانا لوکل گورنمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ مقامی حکومتیں تمام تر نظام لوکل کمیونٹیز کے ذریعے جمہوری اور بلدیاتی نظام کی فراہمی کمیونٹیز کی پائیدار خدمات حاصل کرنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 اور 2013 کا مقصد صوبے میں لوکل گورنمنٹ کے اداروں کی تشکیل اور تسلسل کے ساتھ لوکل گورنمنٹ سے متعلق قانون کو مستحکم کرکے اس سے متعلقہ امور کو سرانجام دینا ہے۔اس حوالے سے مقامی حکومتی اداروں کے فروغ کے لئے متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرکے ان میں کسانوں، مزدوروں کو پانچ فیصد اور خواتین کو 33فیصد خصوصی نمائندگی دی جاتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ہر صوبہ اپنے بلدیاتی نظام یا مقامی حکومتوں کا نظام وضع کریگا ،ہر صوبہ قانون کے مطابق اپنا ایک لوکل گورنمنٹ ایکٹ یا بلدیاتی نظام قائم کریگا اور سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری و اختیار مقامی حکومت کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیگا۔
دوسری جانب بلوچستان میں بلدیاتی نظام میں دیہی اور شہری تقسیم ہے۔ دیہی کیلئے یونین کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسلز جبکہ شہری آبادی کے لیے میٹرو کارپویشن ، میونسپل کارپوریشن میونسپل کمیٹیز اور ٹاون کمیٹیز کے الگ الگ ادارے بنائے گئے ہیں۔ ہر بلدیاتی ادارے میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے گروپوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد کا تعین کیا گیا ہے۔جس میں خواتین کی نشستیں ،جنرل نشستیں،کسانوں کی نشستیں اور جنرل ممبران کی نشستیں شامل ہیں، اسی طرح صوبے میں مقامی کونسلوں کو نچلی سطح پر ترقیاتی کام اور شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے فرائض سرانجام دینے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔ جن میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا نظام ،کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل کو یقینی بنانا ،جانوروں کے فروخت کے لیے مویشی منڈی کا قیام عمل میں لانا ، لوکل بازاروں کا قیام ،آگ، سیلاب، قحط و دیگر قدرتی آفات کی صورت میں امدادی اقدامات، صحت عامہ کے فروغ سمیت زرعی پیداوار میں اضافہ ،زرعی فارموں کا قیام اور ان کی دیکھ بھال، زرعی قرضوں کا فروغ، زرعی تعلیم اور زرعی ترقی کو فروغ دینا ،کونسل کے سالانہ بجٹ کی تیاری، مقامی علاقوں کے لیے ترقیاتی ا سکیمیں بنانا اور نافذ کروانا، مقامی فنڈ قائم کرنا ،مقامی کونسلوں کے ترقیاتی منصوبے مخصوص سیکٹرزجن میں مالیاتی منصوبہ، پراجیکٹ کے فوائد اور ماحولیاتی اثرات شامل ہیں۔
بلدیاتی نظام کے توسط سے صوبے کے تمام اضلاع کی یکساں بنیادوں پر ترقی حکومت کی اولین ترجیحات کا حصہ قرار دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے صوبے میں اربوں روپے کے مالیت کے متعدد ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے جاتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت کی نگرانی بلدیاتی انتخابات میں آئے ہوئے نمائندے کرتے ہیں اور ان منصوبوں کو مقررہ وقت میں مکمل کراتے ہیں کہ جن کے براہ راست عوام پر ثمرات مرتب ہوں۔ مختلف علاقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں، عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات اور عوامی مسائل کے حل سے متعلق عوام کو درپیش مسائل کا بلدیاتی نمائندوں کوبھر پور ادراک ہوتا ہے۔ وہ اپنے اپنے علاقوں کی پسماندگی کو دور کرنے اور لوگوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھا نے کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔اسی لئے مقامی سطح پر بلدیاتی نظام عوام کی خدمت کے لئے ایک کارگر ٹول ثابت ہوا ہے۔ اس نظام کی کامیابی میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا رول بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔مگر بلوچستان میں خواتین کو مخصوص حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے لئے قبائلی روایات۔تعلیم کے حصول میں دشواری۔جیسے بیشمار مسائل کے ہوتے ہوئے بلوچستان کی خواتین زندگی کے مختلف شعبہ ہائے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اب بلوچستان اسمبلی کی خواتین اراکین اسمبلی کی قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں بلوچستان اسمبلی میں خواتین ارکان کی کل تعداد 11 ہے۔ جن میں سب سے زیادہ چار خواتین ارکان کا تعلق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے۔بی این پی اور جے یو آئی کی دو دو، تحریک انصاف، اے این پی اور بی این پی عوامی کی ایک ایک خاتون رکن مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں نمائندگی کر رہی ہیں۔
بی اے پی کی ڈاکٹر ربابہ بلیدی، صوبائی پارلیمانی سیکریٹری بشریٰ رند اور اپوزیشن جماعت بی این پی کی شکیلہ نوید دہوار صوبائی اسمبلی میں سب سے فعال خواتین ارکان ہیں۔ تینوں ممبران نہ صرف ہر اسمبلی اجلاس میں شریک ہوتی ہیں بلکہ قانون سازی اور اسمبلی میں ہونے والے مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
ڈاکٹر ربابہ بلیدی وومن کاکس کی چیئر پرسن بھی ہیں انہوں نے کئی بلز بھی اسمبلی سے منظور کرائے ہیں۔ تاہم بلوچستان کی صوبائی کابینہ میں کوئی خاتون رکن شامل نہیں ہے۔ اب بلدیاتی انتخابات میں بلوچستان کی سیاسی و قبائلی شخصیات تعلیم یافتہ اور اہل خواتین کا آگے لائیں تاکہ وہ اپنے اپنے شہروں اور دیہاتوں کے مسائل پر بہتر نمائندگی کرکے عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرائیں اور میونسپل کمیٹیز تحصیل کونسلز اور ڈسٹرکٹ کونسلز میں قانون سازی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ یہی خواتین آگے چل کر صوبائی اسمبلی قومی اسمبلی اور سینٹ میں بہتر نمائندگی کا حق ادا کر سکیں۔ لیکن بلوچستان میں قبائلیت کو جواز بنا کر ایسے خواتین کا انتخاب برائے نام کونسلر کرانا خواتین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان میں اہل اور قابل خواتین کی کمی نہیں اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں قابل تعلیم یافتہ اور اہل و قابل خواتین امیدواروں کا انتخاب کروائیں۔ اور ساتھ ہی یونین کونسلز۔ تحصیل کونسلز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیئرمین اور وائس چیئرمینز کیلئے خواتین کا انتخاب کریں مجھے بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی کرنے والے اراکین اسمبلی نے جینڈر بیلنس قوانین سازی کے بجائے خواتین کو صرف مخصوص نشستوں تک ہی محدود کر دیا ہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ خواتین کو چیئرمینز کے تینوں کیٹیکریز (میونسپلز تحصیل و ڈسٹرکٹ کونسلز)میں بھی بھی نمائندگی دی جاتی تو خواتین کی موثر طور پر نمائندگی ہوتی تاہم اب بھی بلوچستان لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں وومن پارلیمینٹرین کاکس نظر ثانی کرکے خواتین کو بااختیار کرکے اور انہیں بنیادی جمہوریت بلدیاتی نظام میں بھر پور شمولیت کیلئے بہترین قانون سازی کرکے اہل اور باصلاحیت خواتین کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے تاکہ خواتین ہر میدان میں شرکت کرکے معاشرتی قوانین سمیت جمہوریت میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں اب دیکھتے ہیں کہ29 مئی کو بلوچستان میں ہونے والے انتخابات میں کتنی خواتین براہ راست انتخابات میں اور کتنی مخصوص کوٹے پر کامیاب ہو جاتی ہیں اور امید کی جا سکتی ہیکہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول قوم پرست جماعتیں خواتین کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کرواکر بلوچستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں ترقی کا انقلاب لانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور بلوچستان لوکل گورنمنٹ نظام کی بدولت گراس روٹ لیول (نچلی سطح ) پر ترقی کا ایک نئے عزم اور ولولے سے آغاز کرینگی۔ اور میری ناقص رائے میں بلوچستان کی پسماندگی غربت اور جہالت کو دور کرنے اور خوشحال پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ بلوچستان بنانے کا سنہری موقع ہے۔ اب یہ بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں پر منحصر ہے کہ وہ 29 مئی کو ترقی یافتہ بلوچستان کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر ہمیشہ کی طرح صرف سیاسی خانہ شماری کا کھیل کھیلتے ہیں۔