کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہاہے کہ بلوچستان میں ظلم وجبر ، اغواء اور گرفتاریاں عروج پر ہیں اورسرکار نے پرامن بلوچستان منصوبے کے اعلان کے بعد سرنڈر کے چند سٹیج شو کرکے اپنے اداروں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی ہم نے پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس منصوبے کے نام پر بلوچوں پر مزید مظالم ڈھائے جائیں گے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ نہتے بلوچوں کا اغوا ء آج بھی جاری ہے کل مشکے بازار سے غلام نبی ولد قیصر، بیان در ولد غلام نبی، فقیر ولد غلام نبی اور ساہو کو اس وقت اغواء کیا جب وہ لکڑیاں بیچنے گجر بازار آئے تھے، جن کا ذریعہ معاش لکڑیاں کاٹ کر بیچنا ہے دوسری طرف سرکاری اعلان کے مطابق انہیں مزاحمت کار اور مسلح تنظیم کا رکن پیش کیا گیا ہے جس سے یہ خدشہ زور پکڑ رہا ہے کہ انہیں دوسرے اغواء شدگان کی طرح لاپتہ کر دیا جائے گا یا ’’مار و اور پھینک دو‘‘ پالیسی کی نظر کردیا جائے گا یہ فورسز کی بلوچ نسل کش پالیسی کا حصہ ہے ترجمان نے کہا کہ مستونگ میں لشکر جھنگوی اور داعش کی جانب سے اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیوں کو علیحدہ پڑھانے کی دھمکی دی جارہی ہے جو قابل مذمت ہے جو مستقبل میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا دعویٰ و دھمکی دے سکتے ہیں مستونگ و گرد و نواح میں لشکر جھنگوی اور اسلامی شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیاں کافی عرصے سے ہو رہی ہیں مگرفورسز کی قائم چوکیاں صرف بلوچ عوام کو تنگ کرنے کیلئے بنائی گئی ہیں اور یہ عناصر آزادی سے گھومتے ہیں ان عناصر کو سرکار کی پشت پناہی میں مضبوط کیا جارہا ہے تاکہ بلوچستان کی سیکولر سماج کو اسلامی شدت پسندی میں تبدیل کرکے ان ہی کے ذریعے بلوچ آزادی کی جد وجہد کو کاؤنٹر کیا جا سکے ریاست اسلامی شدت پسندوں کے خلاف امریکہ و یورپ سے مالی و عسکری امداد حاصل کرکے انہیں بلوچ نسل کشی میں استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف طالبان اور دوسرے اسلامی شدت پسندوں کی پرورش میں مصروف ہے۔