|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2022

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ہدف حاصل کرنے پر ایف بی آر ٹیم کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے تعریف ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے دوران کی۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا تو انہیں ادارے کی کارکردگی اور ریونیو اکھٹا کرنے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

وفاقی وزیر خزانہ کو بریفنگ چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد اور دیگر سینئر افسران نے دی۔ وزیر خزانہ کو گزشتہ دس ماہ کے دوران ادارے کی مجموعی کارکردگی اور محصولات وصولیوں کی بابت بھی آگاہ کیا گیا۔مفتاح اسماعیل نے ہدف حاصل کرنے پر ایف بی آر ٹیم کی تعریف کی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ایف بی آر رواں مالی سال کے لیے مقرر کردہ ہدف حاصل کر لے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس دوران زور دے کر کہا کہ ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی حقیقی صلاحیت بروئے کار لانے کے لیے بھرپور کوششیں کرے۔ انہوں نے چیئرمین ایف بی آر کو ٹیکس وصولی مہم میں مکمل تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پاکستان کسٹمز کی جانب سے اپنائے گئے مختلف ڈیجیٹل اقدامات کو بھی سراہا۔ بہرحال یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ہمارے یہاں سیاستدان سے لیکر صنعتکار کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں جس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے تاکہ واضح ہوسکے کہ جومحصولات ہیں وہ کہاں سے ہورہے ہیں۔

رواں سال کے پہلے ماہ کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پارلیمنٹرینزکی سال 2019 کی ٹیکس ڈائریکٹری میں بتایا ہے۔وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے کا ٹیکس ادا کیا،ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے 82 لاکھ 42 ہزار662 روپے ٹیکس دیا۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پانچ لاکھ 35 ہزار 243 روپے ٹیکس ادا کیا۔سابق صدر پاکستان آصف زرداری نے 22 لاکھ 18ہزار229 روپے ٹیکس دیا جبکہ سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے 48 لاکھ 71 ہزار277 روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے ہیں۔

ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری کے حوالے سے بتایا گیاہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارنے ٹیکس کی مد میں صرف مبلغ دو ہزارروپے ادا کیے ہیں۔یہ مکمل نقشہ واضح ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے پاس اثاثے کتنے ہیں اور ٹیکس کتنا دیتے ہیں افسوس کہ گزشتہ ستر سالوں سے زائد عرصے سے عوام ہی کے جیب سے ٹیکس وصولی جاری ہے جو مہنگائی کی صورت میں ان سے لیاجاتا ہے اگر ہمارے سیاستدان ملک کے ساتھ مخلصانہ طریقے سے اپنا ٹیکس ادا کریں تو یقینا ملک کا قومی خزانہ بھر جائے گا مگر ایسا نہیں کیاجاتا جوبوجھ ڈالنا ہے وہ غریب عوام پر ہی ڈالنا ہے ۔

وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل سمیت پورے نظام کو اس حوالے سے سوچنا چاہئے کہ کب تک غریب کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر سیلزٹیکس کے نام پر وصولی کی جائے گی کیا سیاستدان اور صنعتکار بری الذمہ ہیں وہ طاقتور ہیں جبکہ غریب کمزور ہے اس تفریق کو ختم کیاجائے سب کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے تب جاکر ٹیکس محصولات کی تعریف ہوگی اور ساتھ ہی غریب عوام پر بوجھ بھی زیادہ نہیں پڑے گا۔امید اور توقع ہے کہ موجودہ حکومت بلاتفریق سب کو ٹیکس دائرے میں لاکر اپنا کردار ادا کرے گی اور غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گی۔ ماضی کی پالیسیوں کو ترک کرکے ایک شفاف نظام لایاجائے گا جو ملک کے وسیع ترمفاد میں ہوگا۔