|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2015

اسلام آباد: ایوان بالا میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی پر سینیٹرز نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اوفا مذاکرات سے کشمیر کا لفظ کیوں نکالا گیا،افغانستان حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات دوبارہ کیوں خراب ہوگئے ہیں،انڈیا کی خفیہ ایجنسی راہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے،پاکستان کی خارجہ پالیسی کیوں ناکام ہورہی ہے،اس کی وضاحت کی جائے اور خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ کے تابع بنایا جائے،اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ میں مشیر خارجہ کی توجہ اخباروں میں چھپنے والی خبروں کی جانب منتقل کرنا چاہتا ہوں جس میں امریکہ میں انڈیا کے بارے میں پینٹاگون میں خصوصی سیل کا قیام ہے جس کے تحت امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک جانب انڈیا نے پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کی ہے اور لگتا ہے کہ نئے سرد جنگ کا آغاز ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی صدر اوبامہ نے پاکستان کا ذکر کئے بغیر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جنگ کو بہتر قرار دیا ہے۔سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں توقع ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بات کریں گے اور انڈیا اس کا جواب بھی دے گا،کیا پاکستان نے اس سلسلے میں کوئی تیاری کی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک انڈیا بارڈر پر انڈیا کی جانب سے آئے روز فائرنگ ہوتی ہے،پاک انڈیا رینجرز کی ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں اس کی وضاحت کی جائے۔سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بہت زیادہ تنقیدآرہی ہیں،ہمارے بارڈ کی صورتحال کیا ہے اس پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں حکومت کی خارجہ پالیسی اور سیز فائر کی خلاف ورزیوں کے بارے میں یو این کو بتائے۔سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ بھارت کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں اور اقتصادی راہداری کے خلاف سازشوں کے بارے میں اقوام متحدہ کو آگاہ کیا جائے،دفتر خارجہ اس سلسلے میں سفارتکاری کے ذریعے بیرونی دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے اقدامات کرے۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ امریکہ کے کہنے کے مطابق ہم نے قبائلی علاقوں میں بھرپور آپریشن کیا،انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ بہتر ہونے والے تعلقات دوبارہ خراب کیوں ہوئے اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر انڈیا کی جانب سے خلاف ورزی کی جارہی ہے۔انڈیا کی جانب سے لاشوں کا تحفہ دیا جاتا ہے اور ہم ان کو آم بھجواتے ہیں،مسلم لیگ(ن) کو بھٹو کی خارجہ پالیسی سے کچھ سیکھنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈیا کی ایجنسی’’را‘‘ کی جانب سے مداخلت کا مسئلہ بھی اٹھانا چاہئے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم مسئلہ وزیر خارجہ کا نہ ہونا ہے جس سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومت خارجی معاملات میں غیر سنجیدہ ہے،خارجہ پالیسی پارلیمنٹ میں بننی چاہئے،اس وقت غیر منتخب لوگ خارجہ پالیسی پر حاوی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں فرقہ واریت،مذہب،آزادی،بھتہ خوری کے نام پر جنگ جاری ہے،حکومت پارلیمنٹ فوج کا یہی کہنا ہے خارجہ پالیسی کو اس طریقے سے طے کرنا ہوگا کہ ہمسایوں کے ساتھ پرامن طور پر رہیں۔انہوں نے کہا کہ چین کے علاوہ دیگر ممالک خارجہ پالیسی سے چیخ رہے ہیں،افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے ملک میں مخالفت لیکر یہ کہا کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات مگر پاکستان کی جانب سے میڈیا میں ایک بات جبکہ حقیقت میں دوسری بات ہوتی ہے،ایران بھی ہماری خارجہ پالیسی سے ناراض ہے،پاکستان اور ہندوستان کے مابین امن بقائے باہمی کے طور پر خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ کو طے کرنا چاہئے:سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ مری میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات دوبارہ کب شروع ہونگے۔سینیٹرسردار محمد اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دو رخی ہے کہتے کچھ میں کرتے کچھ ہیں،خارجہ پالیسی کا اختیار پارلیمنٹ کو ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان نے پاکستان کے ساتھ کئے گئے وعدے نبھاتے مگر پاکستان کے مقتدر حلقے کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں،مقتدر حلقے خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ کے ذریعے کرایا جاتے۔سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ بلوچستان اور فاٹا کے اندر دخل اندازی کے بارے میں ہندوستانی ہاتھ کے شواہد موجود ہیں اس سلسلے میں خارجہ مور عالم دنیا کو کیا پیغام دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کرکے ملک میں امن قائم کیا تو پھر افغانستان کی جانب سے دوسری قسم کی آوازیں کیوں آرہی ہیں،اس کی صورتحال واضح کی جائے۔سینیٹر کینتھ ولیم نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کیوں پیدا ہورہا ہے،افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات ملامحمد عمر کی رحلت کی اطلاع کے بعد ختم کردئیے گئے۔انہوں نے کہا کہ خفیہ طاقتیں پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کے بگاڑ میں مصروف ہیں،اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ اوفا کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ غیر ملکی چینل کو سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے دئیے جانے والے انٹرویو اورلائن آف کنٹرول کے بارے میں ہندوستانی میڈیا کے بے بنیاد پروپیگنڈہ کے حوالے سے وضاحت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات اور افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے ناکام ہونے اور افغانستان اور پاکستان کے مابین تجارتی معاہدوں میں رکاوٹ آچکی ہے،حکومت اس صورتحال کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرے