|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2022

پاکستان تحریک انصاف کے اپنے اتحادی اب عمران خان کو یہ مشورہ دینے لگے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے متعلق کچھ نہ کہے بلکہ سیاسی مخالفین کو ہی ہدف میں رکھیں، اس تمام سیاسی صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں بلکہ عدم اعتماد کی تحریک پر بھی وہ نیوٹرل رہی ہے لہٰذا اب اس پر مزید بحث کرنے کی گنجائش نہیں مگر جس طرح سے پی ٹی آئی کی پالیسی اور عمران خان کا جارحانہ رویہ ہے اس سے نہیں لگتا کہ عمران خان اپنے اس بیانیہ سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔

عمران خان اب تک متعدد بار مختلف باتیں عدم اعتماد کے حوالے سے کرچکے ہیں جس میں بہت سے جول ہیں مگر وہ ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بات کررہے ہیں پہلے روز سازش میں ایک غیرملکی کا ذکر آیا، پھر امریکہ کا نام لیا اب اندرون خانہ سازش قرار دے رہا ہے ۔خط سے پہلے ہی سازش تیار ہورہی تھی بقول عمران خان کے تو اس میں بیرونی سازش کا عنصر کیسے آیا ؟ عمران خان کے آئے روزکے بیانات میں تضاد واضح دکھائی دے رہا ہے ، اب اتحادی بھی عمران خان کو اسٹیبشلمنٹ کے حوالے سے بات کرنے سے منع کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کاکہنا تھا کہ حکومت وقت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اسٹیبلشمنٹ نے کچھ نہیں کیا، کیا اس سے زیادہ نیوٹرلٹی ہوتی ہے لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ نیوٹرل نہیں، وہ نیوٹرل ہیں اس لیے عمران اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے بجائے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنائیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ عمران خان کو ایسی بات نہیں کہنا چاہیے جس سے فائدے کی بجائے نقصان ہو، انہوں نے کہا کہ ہماری بھی کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات بہترہوں، خان صاحب کے پاس جب بھی گئے۔

یہ ہی کہا کہ ہمیں لڑائی والا کام نہیں کرنا،کوئی فائدہ نہیں، ہماری ڈائریکشن یہ ہونی چاہیے کہ ہم سیاسی مخالفین کو ہٹ کریں۔اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت کیوں بے ساکھیاں ڈھونڈ رہی ہے وہ کیوں کسی اور کی مداخلت چاہتی ہے؟ حکومت ڈیلیور کرکے دکھائے اور اشیاء کی قیمتیں نیچے کرکے دکھائے، شہباز شریف اپنی مکینکی دکھائے اور بجلی کا مسئلہ حل کرے۔ شریفوں کے ساتھ 22 سال رہا ہوں، ان کے ہاتھ مجھے لگ چکے ہیں، شریفوں کا ہمارے ساتھ تعلقات کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں تھا، شریفوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ دھوکا کیا اور ہم نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے، اب شریفوں کاساتھ دے کر باربار وہی غلطی دہرانا نہیں چاہ رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وفاقی سطح پر جلد الیکشن کرائے جائیں، جلسے اور لانگ مارچ کا دباؤ الیکشن کرانے کے لیے ہے جبکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں۔چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ (ق) لیگ میں کوئی اختلاف نہیں۔

شجاعت صاحب کی جوپارٹی ہے وہی ہے اور طارق بشیرچیمہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں، ہم سب اکٹھے ہیں جبکہ طارق بشیر وزیر بنے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے، یہ حکومت کتنی چلنی ہے، وزارتیں ختم ہونی ہیں تو انہیں گھرپرہی آنا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے کئی بار ایشوز آتے ہیں اور حل بھی ہوجاتے ہیں جب کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔چوہدری برادرن بڑے عرصے سے ملک کے مرکزی سیاست میں اہم پوزیشن میں رہے ہیں اور ان کے تعلقات سے سب ہی واقف ہیں ملک کے اتار چڑھاؤ ،حکومت واپوزیشن کا وسیع تر تجربہ ان کے پاس موجود ہے مگر یہ بات الگ ہے کہ اس بار چوہدری پرویز الہٰی نے بڑی سیاسی غلطی کی ۔

یہ کہنا کہ ن لیگ اور ان کے درمیان نہیں بنتی پھر کس طرح سے وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے مکمل راضی ہوگئے تھے اور اب ان کے رکن حکومت کا حصہ ہیں اور اب بھی پارٹی سے براہ راست وابستہ ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے ان سے بڑی سیاسی غلطی ہوگئی ہے۔ بہرحال اب ملک کے اندر جو حالات چل رہے ہیں اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت سے چیلنجز اور بحرانات کا سامنا ہے اگر سیاسی استحکام نہ رہا تو بڑے مسائل پیدا ہونگے جو خود پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی نیک شگون ثابت نہیں ہونگے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان چوہدری پرویز الہٰی کے مشورے پر عمل کرینگے یا پھر اپنے ٹریک پر ہی چلتے رہینگے جس کا آخری نتیجہ سیاسی نقصان ہی ہوگا۔