نیب ملک کا ایک ایسا ادارہ ہے جسے کرپشن کی روک تھام اور حقیقی احتساب کے لیے تشکیل دیا گیا تھا مگر اس ادارے کو اس قدر متنازعہ بنادیا گیا ہے کہ نیب کی ہر کارروائی کو دوسری جماعت سیاسی انتقامی کارروائی سے جوڑتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جو کچھ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے ساتھ ہوا اس سے بہت ہی منفی تاثر گیا ہے۔
کہ نیب جانبدار ہوکر کیسز بناکر سیاسی شخصیات سمیت بیوروکریسی کو دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کررہی ہے اور اس کی سرپرستی باقاعدہ حکومتی جماعت کرتی رہی ہے کسی ایک جماعت پر یہ ملبہ نہیں ڈالا جاسکتا اس میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور نیب سے اپنے کام لیے ہیں جوکام نیب کو خود قانون کے اندر رہ کر کرنا چاہئے اس سے ہٹ کر کارروائیاں کی گئیں جس پر ہر سطح پر تنقید کی گئی۔
سیاستدانوں کے لیے نیب ایک دردسر بن کر رہ گیا ہے اپوزیشن میں رہنے والی جماعتیں شکوہ جبکہ حکومتی جماعت نیب کی تعریف اور غیرجانبداری کا رٹا لگاتے دکھائی دیتی رہی ہے ملک کے اندر جب سیاسی مقاصد کے لیے اداروں سے کام لیاجائے گا یقینا اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوںگے اور پھر یہ مکافات عمل کے طور پر سامنے آئے گا جو کہ ہوا بھی اسی طرح ہے۔ بہرحال اب وفاقی حکومت نے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے خلاف قومی احتساب بیورو کے اختیارات تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔
اطلاعات کے مطابق کرپشن کے نام پرنیب کارروائی کا دائرہ کار تبدیل کرنے کیلئے نیب آرڈیننس میں 31 ترامیم تیار کرلی گئی ہیں اور کرپشن کیسز میں نااہلی 10 سال کے بجائے 5 سال کیلئے ہوگی اور 5 سال بعد الیکشن لڑا جاسکے گا۔ترمیم کے مطابق کرپشن کیس میں سزا پر اپیل کاحق ختم ہونے تک عوامی عہدے پر فائز رہا جاسکے گا۔ نئی ترمیم میں نیب کا ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیارختم کردیا گیا ہے اور اب عدالت کی منظوری سے نیب ملزم کو گرفتار کرسکے گا۔
5سال سے زیادہ پرانی ٹرانزیکشن یا اقدام کے خلاف نیب انکوائری نہیں کرسکے گا، بار ثبوت ملزم کے بجائے نیب کوفراہم کرنا ہوگا ورنہ انکوائری شروع نہیں ہوسکے گی۔نئی مجوزہ ترمیم کے تحت وزیراعظم، کابینہ ارکان اورکابینہ کمیٹیوں کے فیصلوں پرنیب کارروائی نہیں کرسکے گا جبکہ زیرالتوا انکوائریاں اور انڈر ٹرائل مقدمات احتساب عدالت سے متعلقہ اتھارٹیزکومنتقل ہوں گے۔مجوزہ ترمیم کے مطابق سیاستدانوں اوربیوروکریسی کے خلاف مالی فائدہ ثابت کیے بغیرکرپشن کیس نہیں بنے گا، سیاستدانوں اوربیوروکریسی کے اچھی نیت کے فیصلوں پر بھی نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹرجنرل نیب کی تعیناتی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بعد صدرمملکت کریں گے۔
ترمیم کے ذریعے نیب آرڈیننس کی 7 شقیں ختم کردی جائیں گی اور نیب ترامیم کااطلاق 1985 سے کیاجائے گا،اطلاق زیرتفتیش اور انڈر ٹرائل مقدمات پر ہوگا۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم کے مسودے پراتحادی جماعتوں اور پی ٹی آئی سے مشاورت ہوگی، اتحادیوں اورپی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد حتمی مسودہ کابینہ کو ارسال کیا جائیگا۔بعض حلقے نیب ترمیم پر یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کافائدہ سیاسی جماعتوں کو ہوگا مگر ادارے جب اپنا کام احسن طریقے سے کرینگے تو وہ متنازعہ نہیں بنیں گے ان پر بے جاتنقید بھی نہیں ہوگی بلکہ ان کی تعریف کی جائے گی ۔المیہ تو یہی ہے کہ ایک قانون بناتا ہے تو دوسرا اسے ختم کرتا ہے اب نئے آرڈیننس کے بعد اگلی حکومت اس کے ساتھ کیا کرے گی یہ سوالیہ نشان ہے۔