اس وقت بلوچستان کے ہر سو ماتم رچا ہوا ہے۔ پیرکوہ میں ہیضے کے باعث لاتعداد اموات ہوچکی ہیں، لیکن حکومت خواب خرگوش کی نیند سورہی ہے۔ بلوچستان سیاسی قیادت سے محروم ہے صرف اور صرف عوامی آواز اٹھتی رہتی ہے جسے بعدازاں دبادیا جاتا ہے۔ ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے اب صورتحال حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ کل ہوشاپ مظاہرین کے پاس ڈی سی کیچ اور ظہور بلیدی گئے جنہیں بے عزت ہوکر لوٹنا پڑا۔ ظہور بلیدی کے گاڑی پر پتھر برسائے گئے وہ جان راہِ فرار اختیار کرگئے۔ بلوچستان کے عوام کا جعلی سیاسی قیادت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
وہ کسی بھی صورت ان جعلی سیاسی گناہگاروں کی نمائندگی قبول نہیں کریں گے۔ ایسے میں حالات مزید بدتری کی طرف جائیں گے۔ ان حالات کا زمہ دار وہ ٹھپہ مار کلچر ہے جس کے زریعے جعلی قیادت کو عوام پر مسلط کیا جاتارہا ہے، اب مزید اس کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت بہتر ہوںگے جب حقیقی نمائندوں کو آگے لایاجائے گا۔ اور اس کے لئے کوئی دھاندلی اور ٹھپہ مار کلچر کے اپنانے کی ضرورت نہیں عوام ہی کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندے مقرر کریں۔ اس ضمن میں 29 مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ایک عمدہ موقع ہے، ضرورت ہے تو بس صاف شفاف انتخابات کا۔ بلوچستان کی موجودہ حالات کا زمہ دار نام نہاد سیاسی قیادت ہیں۔
جنہوں نے کبھی بلوچستان کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی مسائل پر بات کی ہے۔ اس بار بھی اگر انہی جعلی قیادت کو مسلط کیا گیا تو آگے جو بلوچستان کے حالات ہوںگے اس پر سوچ کر ہی رونگٹیں کھڑے ہوں گے۔ آواران میں بلوچستان عوامی پارٹی “باپ” اپنی اکثریت کھو بیٹھی ہے۔ اور بلدیاتی انتخابات میں طرح طرح کے حربے استعمال کرنے پر اتر آئی ہے۔ جھاو کورک میں عوامی پینل کینامز امیدوار رمضان نامی شخص جو باپ پارٹی کے سابقہ ضلعی چیئرمین نصیر بزنجو کے مدمقابل کھڑا تھا اس کو ڈرا دھمکا کر زبردستی کاغذ نکلوا دیئے گئے۔ اور کہی دیگر دور دراز علاقوں سے اس نوعیت کے وقعات رونما ہوئے ہیں جن میں چند ایک تو ویڈیو کی شکل میں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ ضلعی انظامیہ کا رویہ جانبدارنہ ہے۔ آر او آفیسراں دباو کا شکار ہیں جن کا اعتراف وہ خود کرچکے ہیں۔ یہ اس ملک کی تاریخ کا حصہ ہیں کہ یہاں حکمرانوں نے اپنی عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاکر ظلم کی داستانیں رقم کی ہیں۔ اور طاقتور حکمران آئین بلا کسی خوف کے روندتے آرہے ہیں۔
جو بھی حکومت میں ہوتا ہے وہ آئین سے بالاتر ہوجاتا ہے ہماری عدلیہ ہر سال عالمی اعداد وشمار میں نیچے جاری ہے یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ چونکہ غریب کے لئے آئین بڑی جلدی حرکت میں آجاتی ہے اور حکمران طبقے جیسے دودھ کے دھلے ہوں، اس ملک میں ایسا کوئی حاکمِ وقت نہیں جو آئین شکنی کا مرتکب نہ ہوں۔یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ہر کوئی حکومت میں آتے ہی آئین کو توڑنے میں زرابھر نہیں سوچتا۔ ہماری عدلیہ ان کے خلاف سولو موٹو نوٹس کیوں نہیں لیتی؟ اس ملک میں ابھی تک اگر کسی ادارے پر لوگوں کی امیدیں وابسطہ ہیں تو وہ عدلیہ پر ہے۔ آج بھی اگر کہی ظلم ہوتی ہے تو لوگوں کی پہلی اور آخری امید عدلیہ پر ہی ہوتی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں پر پورا اترے گی اور انہیں ریلیف فراہم کرے گی۔ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ فرض کریں ایک شخص پوورے نظام کو اپنا غلام بنائے رکھتی ہے۔ لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہاں البتہ اسکے مخالف پر انتقامی کارروائیاں ضرور کی جاتی ہیں۔ جب ادارے اپنے فرائض سے غافل ہوجائیں تو ملک بن بدامنی کا شکار ہوجاتی ہے اور سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
اور پھر بوسیدہ نظام سے انصاف کی توقع کرنا بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ آواران ضلعی انتظامیہ اس وقت عبدالقدوس بزنجو کے تابع ہے آر او اور ضلعی انتظامیہ کا رویہ اسی طرح جانبدارانہ رہا تو کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات صاف شفاف ہوںگے؟ جبکہ آر او اپنی مجبوری اور اپنے اوپر دباو کا اعتراف کرچکے ہیں۔ جب سردار شہباز خان نے آر او جھاو سے ریسیونگ لیٹر مانگے تو کافی الجھنے کے بعد انہوں نے لیٹر دیئے اور کہا کہ ہمارے اوپر سے دباو ہے۔ عبدالقدوس بزنجو اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھا کر پورے نظام کو معزول کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کئی حلقوں کی جانب سے سرکاری مشینری کے بے دریغ استعمال، آر او کی جانبداری، اور ضلعی انتظامیہ کیجانبدارانہ رویے کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عوامی پینل کے سینئر رہنما سردار شہباز خان جھاو کورک امیدوار رمضان کا کیس ہائیکورٹ میں دائر کرچکے ہیں۔ شنوائی ہوئی تو عین ممکن ہے اس کورک انتخابات مسترد کئے جائیں اور دوبارہ صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کا حکم صادر کیا جائے۔ دونوں صورت کامیابی عوامی پینل کا ہی ہوگا۔