پاکستان دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے ۔ آئے دن دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور سال یا چھ ماہ بعد بڑا واقعہ ضرور پیش آتا ہے ایک تو دہشت گرد پاکستان کی ریاست اور عوام کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اور دوسری وہ بدلہ لینے کی کوشش میں فوجی اہلکاروں ‘ فوجی تنصیبات اور فوجیوں کے بچوں اور رشتہ داروں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہیں ۔ اسلام آبادکی ایک مسجد کے امام نے ایک بار اس کی حمایت کی تو پورے قوم نے ان کی نہ صرف مذمت کی بلکہ زبردست احتجاج کیا کیونکہ عالم دین صاحب دہشت گردی کو حق اور جائز قرار دینے کی کوشش کی ۔ اسی بات کی مذمت میں سبین محمود جیسی شخصیت کو قتل کیاگیا ۔ قاتلوں نے پولیس کے سامنے یہ تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے سبین محمود کو صرف اس لئے قتل کیا کہ انہوں نے اسلام آباد کے مسجد کے امام کے خلاف تحریک کی رہنمائی کی تھی سبین محمود کا کوئی دوسرا جرم نہیں تھا ۔ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف زبردست کارروائی ہورہی ہے ۔ دہشت گردوں کے سب سے بڑے گڑھ شمالی وزیرستان سے ان کا صفایا جاری ہے ۔ افواج پاکستان کو اس سلسلے میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ مگر اس سلسلے میں مکمل کامیابی کا انحصار افغانستان کے رویے اور اسکے تعاون سے مشروط ہے ۔ پاکستان نے افغانستان کو کارروائی سے پہلے اطلاع دی تھی کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں ایک بڑی کارروائی کاآغاز کررہی ہے اس میں تعاون کی صورت میں دہشت گردوں کا صفایا ہوسکتا ہے اور دونوں ملک آئندہ زیادہ پر امن طریقے سے تعلقات جاری رکھ سکیں گے جب افغانستان ان دہشت گردوں کے افغانستان فرار ہونے کے تمام راستے بند کرد۔ پاکستانی فوج نے زبردست کارروائی کی لیکن افسوس کی بات ہے کہ افغانستان نے تعاون نہیں کیا ، اپنی سرحدوں کو بند نہیں کیا اور دہشت گردوں کو فرار ہونے کاموقع فراہم کیا یوں دہشت گرد فرار ہوگئے ۔ آج کل ان کی بڑی تعداد افغانستان میں ہے ۔ افغانستان اور اس کے حکمران یہ بات محسوس کررہے ہیں کہ انہوں نے غلطی کی اور دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا بلکہ بعض سرحدی محافظین نے ان کی مدد کی اور ان کو پاکستان سے بچ نکلنے کا موقع دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طالبان نے افغان حکومت پر حملے تیز کردئیے ۔ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں طالبان دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئے دن ایک آدھ ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ ہوتا ہے ۔ درجنوں سپاہی ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں یہ سب کچھ افغان طالبان کی طاقت میں اضافہ کے بعد ہوا ہے ۔ پاکستانی طالبان افغانستان پہنچ گئے او روہاں پر حالات زیادہ خراب ہوگئے ۔ اگر افغانستان تعاون کرتا اور پاکستان کی مدد کو آتا اور اپنی سرحدوں کو بند کردیتا تو ممکن تھا کہ ان کی مشکلات میں کمی آتی اور افغانستان زیادہ پر امن ہوتا بہ نسبت آج کل کے حالات کے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑیں گے تو ان کو یقینی طورپر کامیابی حاصل ہوگی اگر افغانستان ملا فضل اللہ کو ،اس کے ساتھیوں کو پناہ دے گا اوران کو کارروائی سے نہیں روکے گا تو دہشت گردی میں اضافہ ہوگا ۔ پاکستان کی حکومت جائز طورپر یہ شکایات کررہی ہے کہ افغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون نہیں کررہا ہے افغانستان کی جانب سے آنے والے دہشت گرد فوجی چوکیوں اور مقامی آبادی کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں ۔افغانستان کی حکومت ان کو روکنے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے ۔ حالیہ ہفتوں میں پاکستان سے اعلیٰ سطحی وفد افغانستان گیا تھا اور افغان حکام کو ثبوت فراہم کیے تھے کہ پاکستانی طالبان کی مدد کی جارہی ہے ،ان کو پناہ دی گئی اور ان کو اس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ پاکستانی سیکورٹی دستوں پر حملہ کریں حالانکہ پاکستان یہ توقع رکھ رہا تھا کہ ملافضل اللہ اور اسکی حامیوں کو افغان حکومت گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرے گی اور اس طرح سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ کامیابی حاصل ہوگی ۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان یہ جنگ اکیلے لڑ کر جیتنا چاہتا ہے ۔ افغانستان نے اپنی سرحدوں کو بند نہ کرکے پاکستان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ پاکستان پھر بھی یہ توقع رکھتا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی امداد نہیں کرے گا کیونکہ اس سے پورے خطے کا امن تباہ ہوگا ۔
پاکستان میں دہشت گردی اور افغانستان
وقتِ اشاعت : September 21 – 2015