ملک میں ایک مسئلہ شفاف احتساب کا ہے جس کا رونا ہر وقت خود سیاسی جماعتیں روتی آئی ہیں کہ نیب جیسے ادارے کو سیاسی کارروائیوں کے لیے استعمال کیاجاتا رہا ہے جو کام اس ادارے کو کرنا چاہئے خود حکمران جماعتوں نے اس سے نہیں لیا۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے جو بھی فراڈ دھوکہ دہی سے قومی خزانے کو نقصان پہنچارہا ہے اس کے خلاف کارروائی کے لیے نیب کو مکمل بااختیار ادارہ بنانا چاہئے اگر ماضی کے تجربات کی طرح نیب کو چلایا گیا۔
تو اس کا سیاسی نقصان خود حکمرانوں کو اٹھانا پڑے گا اور ایسا ہوا ہے تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی من پسند، منظور نظر شخص کو نیب کا چیئرمین تعینات کیا، حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد وہی چیئرمین نیب ان کے خلاف بھی کارروائی نئے حکمرانوں کے ساتھ ملکر کرتی رہی، اس طرح سے ادارہ مشکوک اور متنازعہ ہوکر رہ گیا، عوامی اجتماعات ودیگر فورمز پر نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کررہی ہے جو ان کی ذمہ داری اور دائرہ کار میں آتا ہے اس سے تجاوز کررہا ہے جو کہ کسی بھی ملک کے انصاف اور شفافیت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہی گزارش کی جاتی رہی ہے کہ خدارا اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیاجائے چیئرمین نیب سمیت ادارے کو مکمل آزادانہ طریقے سے کام کرنے دیا جائے تاکہ کرپشن کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہوسکے ،اگر ماضی کے رویہ کو برقرار رکھا گیا تو نقصان خود سیاسی جماعتوں کو اٹھانا پڑے گا۔ بہرحال حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے چیئرمین قومی احتساب بیورو کا نام فائنل کر لیا گیا۔اطلاعات کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جگہ نئے چیئرمین نیب کا نام حکومتی اتحاد نے فائنل کر لیا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے نام پر حکومتی اتحادی جماعتوں میں آپس میں اتفاق کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے مابین نئے چیئرمین نیب کے نام پر مشاورت ہوئی جس میں جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے نام پر اتفاق کیا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس نام پر اتفاق کیا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن راجہ ریاض بھی جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے نام پر اتفاق کریں گے جس کے بعد قوی امکان ہے کہ وہی نئے چیئرمین نیب ہوں گے۔واضح رہے کہ جسٹس (ر) مقبول باقر سندھ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں پروموٹ ہوئے تھے اور ان کے بطور جج کردار پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا۔موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے عہدے کی مدت 2 جون کو ختم ہو جائے گی اس لیے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی اس سے قبل ہی ہونے کا امکان ہے۔
امید ہے کہ جس طرح سے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اور نام کو فائنل کیاجارہا ہے انہیں کسی سیاسی مقصد کے حوالے سے دباؤ میں نہیں لایا جائے گا اور نہ ہی مخالفین کے خلاف انہیں استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو کام نیب کا ہے اسی طرح آزادانہ طور پر کام کرے اور کارکردگی عوام کو بھی واضح طور پر دکھائی دے ۔اس ملک میں اگر کوئی بڑا مسئلہ ہے تو وہ کرپشن کے خلاف جنگ کا ہے اور یہ کام ادارے کو کرنا ہے جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیںہوگا ملک ترقی نہیں کرے گا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے اپنے ہاتھ صاف کرتے رہینگے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈلتا رہے گا ۔ضروری ہے کہ اب سیاسی رویوں میں تبدیلی لائی جائے اور اداروں کو سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کی بجائے انہیں اپنا کام خودکرنے دیاجائے تاکہ شفاف احتساب سب کے ساتھ ہوسکے۔