|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2022

بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں آزادامیدواروں نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ووٹنگ میں شہریوں کی بھرپوردلچسپی نظرآئی۔خواتین نے بھی ووٹ کاحق استعمال کیا۔ضلع تربت میں ٹرن آؤٹ 31فیصدرہاجوپاکستان کے کسی بھی بڑے شہرکے ٹرن آؤٹ کے برابرہے۔اب تک کے غیرحتمی نتائج کے مطابق آزادامیدواروں نے ایک ہزارسات سوترپن نشستیں حاصل کرلیں۔

سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام سب سے آگے ہے اور اب تک دوسوباسٹھ نشستوں پرکامیابی حاصل کرچکی ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی نے دوسوستاون نشستیں حاصل کیں۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے ایک سوپچیس نشستیں حاصل کیں۔ نیشنل پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں بہترین پوزیشن حاصل کی ہے نیشنل پارٹی نے ایک سواٹھائیس نشستیں حاصل کرلیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل پینسٹھ نشستوں کیساتھ پانچویں نمبرپرآگئی۔پیپلز پارٹی ننانوے نشستوں کے ساتھ چھٹے نمبرپرہے۔بی این پی عوامی نے بتیس نشستیں نکالیں۔ پی ٹی آئی کے امیدوارانسٹھ نشستوں پرکامیاب ہوئے۔

بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہوا ،ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے کرانے کا سہرا بلوچستان کے سر گیا ہے، اس سے قبل بھی بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے بلوچستان میں ہوئے تھے اور حکومتی اتحادی جماعتوں نے معرکہ مارا تھا ،اس بار اپوزیشن جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو زیادہ ووٹ پڑے۔ بہرحال یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ احسن طریقے سے بلدیاتی انتخابات کا پہلا فیز مکمل ہوگیا ہے ۔جس طرح پہلے اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے اختیارات اور فنڈز پر کسی کا دباؤ نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں مکمل بااختیار کرکے آزادانہ طور پر کام کرنے دیاجائے تاکہ وہ اپنے حلقے کے مسائل خود ایڈریس کرکے فوری حل کرسکیں ،اگر رکاوٹیں کھڑی کی جائینگی تو مقامی حکومتیں بے اثر ہوکر رہ جائینگی جو کریڈ ٹ بلدیاتی انتخابات کا بلوچستان کو ملا ہے اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوگاجس طرح سے وسائل خرچ کرکے بلدیاتی انتخابات غریب صوبے کے کرائے گئے تو اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہونے چاہئیں۔

ایک ماڈل کے طور پر بلوچستان میں مقامی حکومتوں کو مثال بنانا چاہئے کرپشن اور منظور نظر افراد کو نوازنے سے گریز کیا جائے۔ لوگوں نے جس طرح سے اپنے قیمتی ووٹ دیکر ایک امید اور آس لگاکر اپنے لیے نمائندگان کو منتخب کیا ہے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی توقعات اورامیدوں پر پورا اتریں اوردیرینہ مسائل کو حل کریں جس میں اسپتال، تعلیمی ادارے، سیوریج، سڑکیں اور خاص کر پانی کا جوسنگین مسئلہ بلوچستان کو درپیش ہے اس کو حل کریں ۔ساتھ ہی دستاویزات بنانے سمیت دیگر سرکاری حوالے سے عوام کو درپیش مسائل ہیں انہیں حل کرکے شکایات کا ازالہ کیاجائے ۔ بلوچستان حکومت کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے معاملات میں کسی طرح کی مداخلت نہ کرتے ہوئے انہیں فنڈز دے تاکہ بلدیاتی نمائندگان کے لیے عوامی مسائل درد سر نہ بن جائیں کیونکہ عوام انہی نمائندگان سے اپنے حلقوں میں رجوع کرینگے ۔

تو ضروری ہے کہ حکومت خلوص نیت کے ساتھ مقامی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرے ۔بلوچستان وسیع علاقہ ہے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں اور ان کا واحد حل بھی مقامی حکومتوں کے پاس ہے اگر اس بار بھی مقامی حکومتوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے تو بلوچستان کے مسائل مزید گھمبیر شکل اختیار کرینگے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ، وزراء ، ایم پی ایز اپنے حلقوں میں بلدیاتی نمائندگان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرکے عوام کی خدمت کرینگے۔