بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تو کردیا گیا ہے مگر ملک بھر میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے شدید گرمی میں لوگ دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں بھاری بھرکم بل دینے کے باوجود عوام کو بجلی فراہم نہیں کی جارہی ۔
شہری احتجاج کرکرکے تھک گئے ہیںمگر متعلقہ ادارے ٹس سے مس تک نہیں ہوتے ، عوام سے لیکر کاروباری طبقہ کی شکایات پر کوئی شنوائی تک نہیں ہوتی، کاروبار تباہ ہورہے ہیں صنعتوں کا پہیہ نہیں چل رہا ، زراعت بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔ ملک کے بیشتر شہری علاقوں میں 16گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں تو بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس صورتحال میں کس طرح سے عوام، تاجر، زمیندار اپنے معمولات زندگی کو کیسے چلاسکتے ہیں ،فریادیںا ور درخواستیں دے دے کر تھک گئے ہیں بعض علاقوں میںٹرانسفارمرز کے مسائل ہیں تو دوسری جانب بوسیدہ تاروں کے باعث سب پریشان ہیں،مسائل بہت زیادہ ہیں۔
ان کا حل کیا ہے کس طرح سے عوام کو اس عذاب سے نکالا جائے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اب وزیراعظم نے اس کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے کیا اس کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی کیونکہ ماضی میں بھی نوٹس لئے گئے مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ گزشتہ روزوزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ بھی کریں لیکن دو گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ کے علاوہ کچھ برداشت نہیں۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے بجلی کی غیر معمولی لوڈشیڈنگ پر برہمی کا اظہار کیا اور اس حوالے سے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔
وزیراعظم نے بجلی کے محکموں سے منسلک افسران پر برہمی کا اظہار کیا ۔ وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ صرف 2 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوڈ شیڈنگ 10 گھنٹے سے زائد ہے، میں آپ کے جھوٹ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اگر آپ مجھے لوڈشیڈنگ کی یہ تاویل دے رہے ہیں تو میں نہیں مانتا۔
اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف وزراء اورافسران پر برس پڑے اور ان کی وضاحتوں کو مسترد کردیا۔وزیراعظم نے کہا کہ کچھ بھی کریں لیکن دو گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ کے علاوہ کچھ برداشت نہیں، مجھے وضاحتیں نہیں چاہئیں، عوام کو مشکل سے نکالیں، عوام کو لوڈشیڈنگ کی تکلیف سے نجات چاہیے، عوام تکلیف میں ہوں اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے صرف دوگھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی بات کی گئی ہے، کیا ایسا ہوگا کہ لوگوں کو 22گھنٹے بجلی مسلسل فراہم کی جائے گی، اضافی لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی ،یہ ایک خواب لگتا ہے ۔
کوئی مانیٹرنگ پالیسی نہیں کہ کس طرح سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دوگھنٹے سے زائد بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی ہے ۔ظاہر سی بات ہے متعلقہ ادارے اور ذمہ داران اپنی طرف سے بہت سارے جواز پیش کرینگے کہ بجلی چوری ہونے اور پیداواری صلاحیت اس حد تک نہیں کہ بجلی فراہم کی جائے اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ بجلی کے بل وصول کئے جائیں مگر اسی طرح سے بجلی بھی فراہم کی جائے ۔
بجلی کی چوری کو روکا جائے اور اوور بلنگ کے ذریعے عوام کو پریشان نہ کیاجائے، اگر حالات اس حد تک پہنچے ہیں تو اس کے ذمہ دار متعلقہ ادارے ہیں کیونکہ انہیں بھی محض منافع کمانا ہے، بجلی چوری ہوتی ہے ان کو فرق نہیں پڑتا ،کنکشن کاٹنے کی بجائے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے جو سراسر زیادتی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دو گھنٹے سے زائد بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بعد وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سرزنش کرینگے یا پھر اجلاس کے بعد پھر اسی طرح معمولات چلتی رہینگی۔