گزشتہ روز وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے زراعت سے متعلق ایک بریفنگ میں حصہ لیا جس میں ان کو زراعت کی ترقی سے متعلق منصوبوں سے آگاہ کیا گیا ۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے محکمہ کو یہ ہدایت کی کہ 100زرعی سائنسدانوں کے پی ایچ ڈی کے داخلے کا بندو بست کیا جائے اور اس سے متعلق کارروائی فوری طورپر شروع کی جائے ۔ اس کے ساتھ ہی زرعی سائنسدانوں کے تبادلے پر ایک سال کی پابندی لگا دی تاکہ وہ پنا کام تسلی کے ساتھ مکمل کریں ۔ انہوں نے مزید 22بلڈوزر خریدنے کی ہدایت کی اور موجودہ 49بلڈوزر کے لئے تیل کی فراہمی کے لئے 16کروڑ روپے مختص کردینے اور ساتھ ہی یہ حکم جاری کیا کہ زمین کو ہموار کرنے کے لئے لیزر کا استعمال کیاجائے ۔ ان تمام ہدایات سے وزیراعلیٰ کی زراعت اور اس کی ترقی سے ذاتی وابستگی کا اشارہ ملتا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ زرعی ترقی کے عمل کو تیز تر کرکے صوبے میں غربت ‘ بے روزگاری اور پسماندگی کو شکست دی جائے ۔ وزیراعلیٰ نے اس سے قبل بھی چار شعبوں کی نشاندہی کی تھی جن میں زراعت کے علاوہ ماہی گیری ‘ گلہ بانی اور معدنیات کی ترقی شامل تھی یہی چار ایسے شعبے ہیں جن سے بلوچستان کی نوے فیصد آبادی منسلک ہے اور اپنا روزگار حاصل کرتی ہے ان میں سرفہرست زراعت ہے ۔ وزیراعلیٰ نے بھی زراعت کو اولیت دی ہے اور یہ زور دیاہے کہ محکمہ زراعت کو زیادہ موثر اور فعال بنایا جائے ۔ اس شعبے میں ریسرچ اور ترقی کے ثمرات لوگوں تک پہنچائے جائیں تاکہ بلوچستان کی معاشی ترقی میں زیادہ تیز رفتاری سے ترقی ہو ۔ گزشتہ سالوں کی نسبت محکمہ زراعت اب بہتری کی طرف مائل ہے ۔ اس کا ثبوت مختلف علاقوں میں نمائشی زرعی فارم ہیں ۔ ان پر عدم توجہی اور زرعی سائنسدانوں کی دولت سے زیادہ دل چسپی اور افسران کی کرپشن نے محکمہ زراعت کو پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ امید ہے کہ اعلیٰ ترین افسران ان تمام معاملات پر زیادہ توجہ دیں گے ۔ اور متعلقہ افسران کو ذمہ داری دیں گے کہ وہ زراعت کی ترقی کے لئے زیادہ لگن سے کام کریں۔ زراعت بلوچستان کی معیشت کا بنیادی شعبہ ہے اس سے بڑی تعداد میں لوگ وابستہ ہیں جہاں سے وہ اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا رزق بھی اسی شعبہ سے منسلک ہے لہذا اس کی ترقی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ویسے بھی بلوچستان میں زراعت کی ترقی کے مواقع دوسرے صوبوں سے زیادہ ہیں ۔ دوسرے صوبوں میں زمین بہت کم تعداد میں بچی ہے جس کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے ۔ اس میں بھی تھر اور چولستان کے ریگستانوں کو چھوڑ کرایسی کوئی زمین نہیں ہے جس پر کھیتی باڑی کی جائے ۔ اس کے مقابلے میں بلوچستان میں دو کروڑ ایکڑزمین قابل کاشت ہے ۔ ان میں سے سبی اور کچھی کے میدان یا وادی میں ستر لاکھ ایکڑ زمین قابل کاشت ہے اور انتہائی زرخیز زمین ہے ۔پٹ فیڈر صرف پانچ لاکھ ایکڑ زمین آباد کرتا ہے اور تجویز کردہ کچھی کینال صرف سات لاکھ ایکڑ زمین آباد کرے گا۔ موجودہ ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کچھی کینال اگلے بیس سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔ 1991ء کے صوبوں کے درمیان معاہدے کے بعد اس کی تعمیر ضروری تھی کیونکہ اس معاہدے کے تحت بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی ملنا تھا ۔ ریاست نے بنیادی ڈھانچہ ہی تعمیر نہیں کیا تو بلوچستان کو اضافی پانی کہاں سے ملتا۔ دوسرے الفاظ میں 1991سے زیر تعمیر کچھی کینال پر ابھی مزید بیس سال لگیں گے تاکہ بلوچستان کو اس کے حصے کامکمل پانی ملے ۔سبی اور کچھی کے میدانوں کوسیراب کرنے کیلئے حکومت بلوچستان کو پانی کے وسائل تلاش کرنے پڑیں گے۔ موجودہ نظام میں صرف دس لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی باقی ساٹھ لاکھ ایکڑ غیر آباد پڑی رہے گی ۔ کچھی کینال صرف بگٹی قبائلی علاقے میں صرف ایک لاکھ ایکڑ زمین آباد کرے گا ۔ کچھی کینال کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ کب آتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکمرانوں کی نیت صاف نہیں ہے ۔