روزنامہ آزادی کو 22سال مکمل ہوگئے ہیں، اس دورانیہ میں روزنامہ آزادی اخبار،ویب اور ڈیجیٹل میڈیا پر اپنا لوہا ایک ٹیم ورک کے ذریعے منواچکی ہے۔
روزنامہ آزادی کے قارئین، ویب اور یوٹیوب چینل کو دیکھنے والے نہ صرف بلوچستان، اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اس کا سہرا لالاصدیق بلوچ کو جاتا ہے جنہوں نے دن رات محنت کرکے اخبار مالک کی بجائے ایک ورکنگ جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ اداریہ ، کالم ، رپورٹس اور خبریں تک خود لکھتے تھے اور جس طرح سے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرکے سامنے لاتے تھے شاید ہی کسی نے اس فن اور ہنر کے ساتھ بلوچستان کا مقدمہ لڑا ہو ۔
لالاصدیق بلوچ نے اپنے دونوں اخبارات بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کو کبھی منافع بخش بزنس کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ انہیں بلوچستان کے مظلوم عوام کی آواز کے طور پر ایک پلیٹ فارم کے حوالے سے تشکیل دیتے ہوئے کام کیا ۔ لالاصدیق بلوچ نے کبھی کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا جو حق اور سچ پر مبنی خبریں تھیں، وہی قارئین تک پہنچائیں ،پھر انہی خبروں کی بنیاد پر رپورٹس ، کالم اور اداریہ تک لکھتے رہے مسلسل بلوچستان کے اہم مسائل کو اجاگر کرتے رہے۔
ان کے سامنے بڑی خبر کبھی بھی اعلیٰ حکام کے بیانات یا وزیرمشیر کے نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ کرپشن، بدعنوانی سمیت بلوچستان کے کسی کونے میں کوئی بھی واقعہ یا مسئلہ سراٹھاتا تو اسے لیڈاسٹوری بناتے، ان کی نظر میں بلوچستان اہم تھا، شاید ہی بلوچستان کا کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کو لالاصدیق بلوچ نے زیر بحث نہ لایا ہو، اگر لالاصدیق بلوچ کے تمام کالم، رپورٹس، اداریوں کو پڑھایاجائے تو مقتدرحلقوں اور حکمرانوں کو بلوچستان کا مسئلہ شیشے کی طرح صاف اور واضح نظر آئے گا۔
انہی تحریروں کے اندر مسئلہ اور حل دونوں موجود ہیں ایسا نہیں کہ صرف نقاد بن کر لالا صدیق بلوچ لکھتے تھے بلکہ مسائل کو حل کرنے کی تجاویز بھی انہی تحریروں میں پیش کرتے تھے۔ لالاصدیق بلوچ کے اخبارات کو اشتہارات کی بندش کا مسئلہ ہر وقت درپیش ر ہتا تھا ان کے قریبی دوستوں سے لے کر وزیر،مشیر سب ہی اس کے حق اور سچ پر مبنی حقیقی صحافتی اقدار سے نالاں رہتے تھے۔
کیونکہ لالاصدیق بلوچ کبھی بھی دوستی اورقربتوں کو بلوچستان پر ترجیح نہیں دیتے تھے، ان کے دل کے قریب بلوچستان تھا،صحافتی زندگی میں انہوں نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا انہیں بڑی سے بڑی پیشکش ہوتی رہی مگر انہیں قبول نہیں کیا ،اگر وہ سمجھوتہ کرتے تو لالاصدیق بلوچ کے ادارے ملک کے اہم کمرشل ادارے کے طور پر جانے جاتے ،مالی حوالے سے کبھی انہیں مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر لالاصدیق بلوچ ایک نڈر اور بہادر صحافی تھے ،مرتے دم تک اپنے صحافتی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
جس کی گواہی نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے نامور صحافی بھی دیتے ہیں کہ لالاصدیق بلوچ ایک صحافی نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے جس کی تحریروں اور بیٹھک سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا ۔ ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد آج ملک سمیت بیرون ممالک اہم اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہونے والے لالا صدیق بلوچ نے کراچی سے اپنے صحافتی کیریئر کاآغاز ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبارڈیلی ڈان سے کیا اور ان کے ساتھ ریٹائرمنٹ تک منسلک رہے ،پھر کراچی سے ہی سندھ ایکسپریس کی اشاعت شروع کی جس کے بعد بلوچستان سے دو اخبارات ڈیلی بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی۔
یہ دونوں اخبارات آج بھی اپنے خبروں، کالموں، اداریوں سمیت یوٹیوب اور ویب کا معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ لالاصدیق بلوچ کا یہ مشن جاری رہے گا بلوچستان کے حقیقی مسائل قارئین تک پہنچتے رہینگے۔ روزنامہ آزادی اور ان کی ٹیم سمیت قارئین کو ادارے کی جانب سے 22سال مکمل ہونے پرمبارکباد پیش کرتے ہیں۔