وفاقی حکومت نے بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جس کی وجہ سے بلوچستان ترقی کی دوڑ میں دوسرے صوبوں کی بہ نسبت بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ اس کی ذمہ دار دونوں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہیں ‘ صوبائی حکمرانوں نے کبھی بھی بلوچستان کی ترقی میں دل چسپی نہیں لی اور انہوں نے کبھی بھی وفاق پر اپنا دباؤ نہیں رکھا اور وفاق کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ جو کچھ چاہے کرے۔ ایک مثال وفاقی بجٹ میں ہر سال ترقیاتی پروگرام ہے جس کے لیے ایک خطیررقم رکھی جاتی ہے ۔ پہلے تو صوبائی حکمران اور فیصلہ کرنے والے اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ وفاق نے اس سال کے بجٹ میں کتنی رقم رکھی اور کن کن منصوبوں کے لئے ۔ ان تمام باتوں سے صوبائی حکمرانوں کو دل چسپی نہیں ہوتی اس لئے وہ غافل رہتے ہیں۔ ان صوبائی حکمرانوں کا اپنا ذاتی یا گروہی ایجنڈا ہوتا ہے اور اسی پر عمل کرنے ا ور مکمل کرنے کے دھن میں لگے رہتے ہیں اور ان کو کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں ہوتی ۔ مثلاً بلوچستان میں بجلی کی ضروریات گزشتہ ساٹھ سالوں سے حل طلب ہیں ۔انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان میں بجلی کا نیٹ ورک 600میگا واٹ سے زیادہ کا لوڈ نہیں اٹھا سکتا جبکہ اس کی بجلی کی ضروریات 17سو میگا واٹ کے قریب ہیں۔ کوئی حکمران یا افسر اعلیٰ یہ نہیں بتاتا کہ بلوچستان کی بجلی کے نیٹ ورک میں توسیع کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ اخبارات ‘ اخبار نویس ‘ پارلیمان کے اراکین ‘ وزراء بلکہ وزیراعلیٰ اور گورنر تک اس بات سے ابھی تک لا علم ہیں نہ ہی وفاقی حکومت نے ان سب کو اعتماد میں لے کر یہ بتایا اور نہ ہم سے کسی نے معلوم کرنے کی کوشش کی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ حالیہ سالوں میں بلوچستان میں بجلی کا بحران ختم ہوتا نظر نہیںآرہا ہے ۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بیس گھنٹے اور کوئٹہ میں چھ سے 8گھنٹے کی لوڈشیڈنگ غیر معینہ مدت تک جاری رہے گی ۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان کے محکوم عوام اذیتوں میں مبتلا رہیں گے ان کے لئے راحت کے آثار نہیں ہیں۔ ہم نے ان کالموں میں یہ شکایت کی کہ بلوچستان2400میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور اس کو صرف چھ سو میگا واٹ بجلی دی جارہی ہے ۔ حاکم وقت کی طرف سے اسلام آباد کے ایک افسر اور منصوبہ ساز افسر کی جانب سے یہ ترنت جواب آیا کہ بلوچستان کا برقی نظام چھ سو میگا واٹ سے زیادہ بجلی کا لوڈ برداشت نہیں کرسکتا اس لئے بلوچستان کے عوام چھ سو میگا واٹ بجلی کی سپلائی پر قناعت کریں اورلوڈشیڈنگ کے مزے لوٹیں ۔ ادھر صوبائی حکومت کو بھی کیسکو سے یہ شکایت ہے کہ اکثر منصوبوں کی رقم کیسکو کو ادا کردی گئی ہے مگر وہ ان پر عمل درآمد نہیں کرتا۔ تاخیری حربے جان بوجھ کر استعمال کرتا ہے اور تاخیر کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ رقم کم پڑ گئی ہے ۔ حیرت ہے صوبائی حکومت کو بھی کیسکو سے شکایت ہے اور یہ شکایت کسی اور کو نہیں بلکہ صوبے کے منتظم اعلیٰ یعنی وزیراعلیٰ کو ہے کہ کیسکو صوبائی حکومت کے ساتھ فراڈ کررہی ہے اور رقم بٹورتے پھرتی ہے ۔ یہ خدمت خلق کا ادارہ نہیں یہ خلق خدا کو اذیتیں دینے کا ادارہ ہے ۔یہ جمعہ کی نماز کے وقت لوڈشیڈنگ کرتا ہے ، عید کی رات کو لوڈشیڈنگ کرتا ہے ۔ اتوار اور شام کے وقت جب کوئٹہ شہر میں بجلی کی لوڈ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ، عین اسی وقت لوڈشیڈنگ کرتا ہے۔ چنانچہ کیسکو نے کم ترین درجے کے کم فہم ملازمین کو یہ اختیار دے دیا ہے یا ان کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ وہ عوام الناس خصوصاً صارفین سے ٹیلی فون پر معلومات کا تبادلہ کریں ۔ پوچھا کہ آج عید کی رات ہے کیوں لوڈشیڈنگ کررہے ہو تو جواب آیا حکم صرف عید کے تین دنوں کے لئے ہے ۔ عید کی رات اور شام اس لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ ہم نے یہ شکایت کی کہ کیسکو کے بعض بد نیت ‘ بے ایمان اور چور افسروں نے صارفین کو لوٹنے کے لئے زیادہ تیز رفتار میٹر لگائے ہیں جو تیس فیصد زیادہ رقم وصول کرتے ہیں اس کی تصدیق نیپرا نے بھی کی ۔ اس پر وفاقی ‘ صوبائی حکمرانوں کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ کیسکو کو تو سانپ سونگھ گیا ہے کیونکہ اس کی چوری پکڑی گئی ہے ۔
بلوچستان کی بجلی کی ضروریات
وقتِ اشاعت : October 7 – 2015