|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2015

تاجروں کی حکومت جب بھی بر سر اقتدار آئی ہے ان کا پہلا کام قومی اثاثوں کی نیلامی ہوتا ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ریاست کے سب سے زیادہ منافع بخش ادارے نیلام کردئیے گئے بلکہ ان اداروں کے حصص فروخت کردئیے گئے جو سالانہ سو ارب روپے سے زیادہ منافع کما رہے ہیں ۔ اس طرح سب سے پہلے بنکوں کو نیلام کردیا گیا ۔ بعض بنک اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے دام فروخت کردئیے گئے۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل فروخت ہوا ۔ اس کے اسی کروڑ ڈالر کی قیمت آج تک وصول نہیں کی گئی ۔ بیس سال قبل پی ٹی سی ایل 20ارب روپے سالانہ منافع کما رہا تھا ۔ اس وقت پی ٹی سی ایل کی قیمت 20ارب ڈالر تھی مگر کرپٹ تاجر حکمرانوں نے سب اثاثے کوڑیوں کے دام فروخت کیے۔ ملک ‘ ریاست اور عوام کو نقصان پہنچایا اور اب بھی بڑے بڑے دعوے کررہے ہیں کہ وہ ملک کو ترقی دے رہے ہیں جبکہ موجودہ دورِ حکومت میں گرانی میں اضافہ ہوا ہے ۔ غربت ‘بے روزگاری میں بڑھی ہے ، لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے ۔ تاجر اور صنعت کار دیدہ دلیری سے بجلی اور گیس چوری کررہے ہیں ۔ ٹیکس کی چوری عروج پر ہے ۔ معاشی طورپر تاجروں کی حکومت نے ملک کو تباہ کردیا ہے ۔ پائلٹ حضرات کی ہڑتال اور احتجاج کا واحد مقصد پی آئی اے کی نجکاری کو روکنا ہے ۔ پی آئی اے میں بحران مصنوعی طورپر حکومت کی پیدا کردہ ہے تاکہ پی آئی اے کے تمام اثاثے من پسند حضرات کو فروخت کرئیے جائیں اور نام نجکاری کا لیاجائے اور مغربی دنیاکو خوش کیاجائے، اس طرح پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے لئے جھوٹ بولا گیا اور کہا گیا کہ حکومت سندھ نے اس کو خریدنے کا اشارہ دیا تھا ۔ سندھ کے وزیر خزانہ نے وفاقی حکومت کے جھوٹ کا پول کھول دیا اور اعلان کیا کہ سندھ حکومت نے کبھی یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ وہ پاکستان اسٹیل کو خریدنا چاہتا ہے ۔ بلکہ حکومت سندھ نے جائز طورپر اپنا حق ادا کرتے ہوئے اسکی سخت مخالفت کی جس نے وفاقی حکومت کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی گئی تو سندھ کی حکومت پاکستان اسٹیل کو دی گئی زمین کی لیز فوراً منسوخ کردے گی جس سے زیادہ بڑا بحران کھڑ اہوجائے گا ۔ سندھ کی مخالفت سیاسی نہیں ہے بلکہ اس کی زیادہ معاشی وجوہات ہیں سندھ سے 18ہزار افراد کے بے روزگاری ہونے کا خطرہ رہے گا۔ سرکاری شعبہ میں یہ ایک قومی دولت ہے اور فروخت ہونے کی صورت میں ساری دولت صرف چند افراد کی مرضی سے خرچ ہوجائے گی اور اس میں سندھ کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوگا ۔ اس لئے سندھ نے قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی مخالفت کی ۔اس طرح پی آئی اے کی فروخت کی صورت میں بلوچستان اور سندھ زیادہ خسارے میں رہیں گے۔ آج کل تو پی آئی اے ایک قومی اےئر لائن ہوتے ہوئے اس بات پر مجبور ہے کہ وہ صوبے میں اور ملک کے دوسرے علاقوں تک رسائی کے لئے فلائٹ چلائے ۔ نجکاری کی صورت میں صرف منافع کی بنیاد پر فلائٹ چلائیں جائینگے، اس صورت میں بلوچ اور سندھی صرف اونٹوں پر سفر کریں گے کیونکہ پی آئی اے کا نجی مالک صرف منافع کمانا چاہتا ہے۔ یہاں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل کے حصوں کی نیلامی کے دوران وفاقی حکومت کو سیاسی مصلحتوں کی بناء پر ٹف ٹائم نہیں دے رہا ۔ گزشتہ بار جب بے نظیر حکومت نے پی پی ایل اپنے ایک من پسند ساہوکار کو فروخت کرنے کی کوشش کی تو نواب ذوالفقار علی مگسی نے وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دیا اور اس کو مجبور کیا کہ وہ پی پی ایل کو نجی مالکوں کو فروخت نہ کرے ۔ اس وقت بھی اس کا سالانہ منافع 65ارب روپے تھا ۔ پی پی ایل نے بلوچستان کے وسائل استعمال کیے تھے اور کئی دہائیوں سے کیے تھے مگر اس کو منافع میں مناسب حصہ کبھی بھی نہیں دیا گیا ۔ چند ایک کم ترین درجے کی ملازمتیں دور دراز علاقوں میں دی گئیں ۔ اعلیٰ ترین ملازمتیں پنجابی اور مہاجروں کیلئے مخصوص کردی گئی تھیں بلوچوں کو اس سے محروم رکھا گیا ۔