گزشتہ ستر سال سے زائد عرصے کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ تین لفظ عوام کو روز سننے کو ملتے ہیں اس ملک کے اندر سب سے بڑا مسئلہ اقتدار کی رسہ کشی ہے مسائل اور بحرانات کبھی ترجیح نہیں رہے، یہ ملک جو اقوام پر مشتمل بناتھا تمام اکائیوں کو یکجا کرکے اسلامی ریاست تشکیل دی گئی جس کا بنیادی مقصد ایک فلاحی ریاست اور ساتھ ہی تمام اکائیوں کو یکساں طور پر ترجیح دینا شامل تھا۔ چالیس کی قرار داد اس کی ایک واضح مثال ہے مگر اس پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔
کیونکہ 1948ء کے بعد ملک میں جمہوریت کبھی بھی مضبوط نہیں رہی غیر جمہوری ادوار نے جمہوریت کو عدم استحکام سے دوچار کردیااس میں بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا کلیدی کردار رہا ہے ان کے اپنے مقاصد اہم تھے۔ غیر جمہوری ادوار میں وزارتوں سے لیکر مشیران بننا ان کی خواہشات میں شامل تھا گوکہ بعد میں وہ جمہوریت کی بات کرتے رہے مگر جو اینٹ رکھی گئی وہ تباہ کن ثابت ہواجس کا خمیاز ملک بھگت رہا ہے۔
اسی سیاسی رویہ نے لوٹا کریسی کو جنم دیا جو ہر جماعت کے اندر گھس بیٹھیے بن گئے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے جو بھی جماعت اکثریت کے ساتھ سامنے آتی ہے تو مخصوص لوٹا کریسی ٹولہ اس میں شامل ہوتا ہے ،ٹانگا پارٹی ہو یا شخصی بنیاد پر ان کی خواہش حکومت کا حصہ بننا ہی ہے جس کے لیے وہ اپنا مکمل سرمایہ لگاتے ہیں ساتھ ہی اثرورسوخ بھی استعمال کرتے ہیں، تعلقات کے تمام نیٹ ورک استعمال کرکے حکومتوں کے اہم عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں جو اس نظام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے ساتھ وہ گورکھ دھندا کرتے ہیں جس کا تصور عام لوگ کربھی نہیں سکتے۔ سونے پہ سہاگا کہ ہر جماعت ایک دوسرے پر یہ الزامات لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ لوٹا کریسی جماعت کی حکومت بنی ہے اور یہی لوٹے ماضی میں انہی کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے رہے ہیں۔
ڈھٹائی دونوں طرف سے ہے یہ ایک بہت بڑا سیاسی المیہ ہے کہ آج تک لوٹا کریسی سے جمہوریت کے دعویداروں نے جان نہیں چھڑائی بلکہ مزید اسے پروان چڑھایا۔ اب بیورو کریسی کا معاملہ ہے ظاہر سی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جب لوٹے آتے ہیں اورسیاسی جماعتیں ان کو اچھی وزارت دیتے اور مشیر بناتے ہیں تو اس کے ساتھ ایسے آفیسران بیوروکریٹس بھی چاہئے جو ان کے ہر حکم کی تکمیل کے لیے جی حضوری کریں ۔
تو ان کے تمام دونمبری کام کو صاف کرنے کے لیے بیوروکریٹس مرکزی کردار ادا کرتے ہیں وہ بڑے عہدوں پر فائز ہوکر تمام وارداتیں احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں، کرپشن کو اتنی ایمانداری کے ساتھ کرتے ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی ،بڑے بڑے منصوبوں میں ہاتھ صاف کیاجاتا ہے کاغذی کارروائی میں کچھ اور زمینی حقائق کچھ اور ہی ہوتے ہیں جبکہ اہم محکموں کے سربراہان انہیں تعینات کیاجاتا ہے ،انتظامی امور ان کے حوالے کیاجاتا ہے ہر جگہ پیسے کی ہیراپھیری ہوتی ہے تو کہاں سے گورننس بہتر ہوگی اور ملک میں کیسے بہتری آئے گی مسائل تو سراٹھائینگے۔
اب ڈیموکریسی کی مضبوطی کہاں سے ممکن ہوگی جب نیت ہی ایسی ہو کہ جو اہم مسئلہ لوٹا کریسی اور کرپٹ بیوروکریٹس کا ہے اسے مکمل پرے رکھا جاتا ہے تو جمہوریت کیسے مضبوط ہوگی سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمہوریت کے بلند وبانگ دعوے صرف ہوائی باتیں ہیں جب تک ان مسائل کو زیر بحث نہیں لایاجائے گا نیت کو بہتر نہیں کرینگے اس ملک کے اندر معاشی اور سیاسی استحکام کبھی بھی نہیں آئے گا ۔
محروم اقوام سمیت عام لوگوں کے مسائل ایسے پر ہی رہینگے اگر ان اہم معاملات پر سیاسی جماعتوں نے اپنارویہ نہیں بدلا تو تبدیلی کا خواب محض دھوکہ ہی ر ہے گا اس کے سوا کچھ نہیں۔