|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2022

گوادر حق دو تحریک سے شہرت پانے والے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے چند روز قبل ایک نجی یوٹیوب چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے بلوچ اور پشتون طالب علموں کے حوالے سے انتہائی غیر مناسب باتیں کیں جو کسی بھی سیاسی اور مذہبی رہنماء کو زیب نہیں دیتا خاص کر اس سرزمین کے باسی اور سیاسی رہنماء کو جہاں کی روایات کی مثال ہرجگہ دی جاتی ہے۔

مولاناہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے نوجوان مرد وخواتین آپس میں ایک ساتھ بیٹھتے ہیں، ڈانس پارٹی ہوتی ہے، نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ باتیں محض نصیحت کے طور پر نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کی دفاع میں کہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ لاہور سمیت دیگر یونیورسٹیز میں جماعت اسلامی کی طلبہ ونگ بلوچ نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو انہوں نے یہی جواز پیش کیا ۔کیا موصوف یہ بتاسکتے ہیںکہ لاہور سمیت دیگر یونیورسٹیز میں کلچر ڈے یا دیگر تقریبات منعقد نہیں ہوتیں جن میں طالبعلم روایات کے مطابق کلچرڈانس کرتے ہیں، گانے سنتے ہیں ۔

اپنی تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وراثت میں ملنے والی روایات کو وہ آگے بڑھاسکیں ۔دوسری بات مردوخواتین طالبعلم ایک ساتھ کیونکر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ تعلیم کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور سیاست بھی ساتھ ہی کرتے ہیں اس میں برائی کیا ہے۔ تیسری بات جو انہوں نے کی کہ طالبعلم نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں ۔

اسی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی تباہ حال ہوکر رہ گیا ہے اور اسکینڈل تک کا ذکر بھی کیا، موصوف شواہد سامنے لاتے کہ جن کاتذکرہ وہ کررہے ہیں اس حوالے سے ان کے پاس ٹھوس شواہد کیا ہیں محض اپنی طلبہ ونگ کی دفاع کے لیے بلوچ طالبعلموں کے خلاف اس طرح کا گھناؤنا الزام لگانا کسی طور قابل برداشت نہیں۔ بہرحال موصوف نے جس جانب اشارہ دینے کی کوشش کی ہے اس کا تصور کوئی سیاستدان کر بھی نہیں سکتا، پنجاب ، سندھ، کے پی کے کے سیاستدانوں نے ایسی باتیں کبھی نہیں کیں، طلبہ تنظیموںکے درمیان تصادم کو ہمیشہ صلح و صفائی کے ذریعے حل کرنے کے متعلق بیانات دیئے مگر اس طرح کے غیر سیاسی ،اخلاق سے عاری جملے استعمال نہیں کئے۔

مولاناہدایت الرحمان کوجو شہرت آج ملی ہے انہی بچوں کے والدین کی وجہ سے ملی ہے، گوادر حق دو تحریک کی حمایت میں تمام بلوچ علاقوں سے آواز بلندکی گئی،اس بارے میں لکھا گیا، تقاریب منعقد کی گئیں تاکہ گوادر کے غریب عوام کی یہ تحریک مزید تناور اور مضبوط ہوکر اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔

مگر یہاں اب بہت سارے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ،مولانا ہدایت الرحمان بلوچ قوم کے لیے نہیں بلکہ مستقبل میں گوادر سمیت بلوچ علاقوں میں جماعت اسلامی کو منظم کرنا چاہتے ہیں تاکہ گوادر حق دو تحریک اسی میں ضم ہوجائے مگر یہ خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔

کیونکہ بلوچ اس خطے میں سیاسی حوالے سے بہت زیادہ باشعور ہیں، علمی حوالے سے لیس ہیں انہیں ہر سیاسی لچک کا فوری علم ہوجاتا ہے جب گوادر حق دو تحریک چل رہی تھی تو بہت سے حلقوں نے مولاناہدایت الرحمان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ یہ جماعت اسلامی کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب کچھ کیاجارہا ہے ۔

اگر ایسی بات ہے تو موصوف گوادر حق دو تحریک کی جدوجہد جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے شروع کرتے، پھر ان کو اپنی سیاسی وزن اور حیثیت کا اندازہ ہوتا مگر انہوں نے بحیثیت بلوچ اس جدوجہد کا آغاز کیا ،اس لیے انہیں اتنی کامیابی ملی کہ بلدیاتی انتخابات میں وہ جیت گئے وگرنہ جماعت اسلامی بلوچ علاقوں سے کبھی جیت بھی نہیں سکتی۔

مولاناہدایت الرحمان اپنی جماعت کے طلبہ ونگ کا دفاع کرتے ہوئے جو کچھ اپنی سرزمین کے نوجوانوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، ا نہیں بھلایا نہیںجاسکتا مگر ایک بات واضح ہوگئی کہ مولاناہدایت الرحمان کو اپنی جماعت سب سے زیادہ عزیز ہے ۔

اور اس کی خاطر وہ بلوچستان کی روایات کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ مولانا ہدایت الرحمان کے اس متنازعہ بیان کا فیصلہ اب بلوچ نوجوان ہی کرینگے جن پر یہ گھناؤنا الزام لگایاگیا ہے البتہ مولاناہدایت الرحمان کی سیاسی ساکھ اب بری طرح متاثر ہوگئی ہے جس تیزی کے ساتھ انہوں نے شہرت حاصل کی اب اس عمل کے بعدان کے زوال کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ مولاناہدایت الرحمان کو چاہئے کہ اپنے بیان پر نظرثانی کرے اور اس کا ازالہ کرے ۔