اس موضوع پر عزیز سنگھور کے کالموں کا مجموعہ ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ “روزنامہ آزادی کوئٹہ” میں شائع شدہ عزیز سنگھور کے کالم بلوچستان میں ہونے والی ظلم و زیادتی کی تصویر کشی کرتے ہیں جن میں آئے روز بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت ایک سیاسی ہلچل ہے۔ مولانا ہدایت الرحمٰن پر سے لوگوں کا اعتماد ٹوٹ رہا ہے۔ مولانا جو بطور حق دو تحریک کے سربراہ چند ہی دنوں میں ایک بڑا لیڈر بن کر سامنے آئے۔
بلدیاتی الیکشن میں اکثریت سے جیتنے کے بعد نفرت انگیز باتیں کرنے لگے ہیںجویہاں کے رسم و راج اور اخلاق کے خلاف ہے۔ جب مولانا دھرنا پر بیٹھے تھے ان کی بے باک تقریوں سے سب متاثر ہوچکے تھے اور یہی بلوچ قوم کی سادگی ہے۔ ان دنوں جب ہر نیوز چینل پر مولانا کا شوشہ تھا ، انور ساجدی صاحب نے جرات کی اور اپنے ایک تجزیہ میں مولانا کی اس بے باکی اور ضرورت سے زیادہ چھوٹ دینے کو اسٹیٹ کی طرف سے مولانا کو لانچ کرنا قرار دیا۔
اس وقت سبھی لوگوں نے انور ساجدی کی اس بات سے شاید اتفاق نہیں کیا لیکن اب سچ ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ 2018 کو جب مقتدر قوتوں نے عمران خان کو لانچ کرنے کا منصوبہ بنایا تو انکے لئے بیانیہ تیار کیا جس میں اخترمینگل کے چھ نکات بھی شامل تھے، ان میں مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی شامل تھا جس کے لئے انہوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا ،اس طرح عمران خان لوگوں میں وہ ایک بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ لوگ ان سے متاثر ہوئے البتہ تعلیم یافتہ طبقے کو بھی انہوں نے کافی متاثر کیا ہوا تھا کہ ملک میں یورپی طرز کی ترقی محض خان کے آجانے سے ہی ممکن ہے سب کو یہی لگا اور اس طرح وہ الیکشن جیت گئے اور پھر انکی سچائی اور اس کے پیچھے ریاست کی چالاکی کھل کر سامنے آگئی۔
مولانا نے گزشتہ دنوں اپنی ایک تقریر میں اخترمینگل کی صاحبزادی بانٹری مینگل کی ذات پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم سادہ مولوی نہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے چونکہ یہاں انہوں نے لفظ’’ ہم‘‘ کا استعمال کیا اور یہ کہ انکے پیچھے جو مولویوں کی گینگ ہے وہ سادہ نہیں بہت چالاک ہے اور مولانا کو لیکر وہ کچھ بڑا منصوبہ بندی کرنے والے ہیں۔ جو آنے والے وقت میں خودبخود عوام کے سامنے عیاں ہوجائے گا۔ بلوچ بیٹی کی عزت کو اگر سندھ پولیس اچھالے تو غلط اگر مولانا ہدایت الرحمن اچھالے تو صحیح یہ تو خالصتاً منافقت ہوگی۔ قوموں کی عزت ہر فرد پر واجب و لازم ہے۔ بانڑی خواہ ایک فرد ہیں لیکن بلوچ ہیں اور یہ بلوچیت پر حملہ ہے، پوری بلوچ قوم کی عزت پر حملہ ہے۔
سندھ واقعہ پر ایک کمیشن بنادیا گیا ہے لیکن یہ کافی نہیں چونکہ یہاں کتنے کمیشن بااثر لوگوں پر کاروائی میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ لالہ عثمان کاکڑ کے قتل پر جوڈیشل کمیشن بنا اس پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے۔ مقتدرہ نے عمران نیازی کے اس بات کو سچ مان لیا کہ نیوٹرل تو صرف جانور ہوتے ہیں۔ اس لئے اس حکومت کو لگتا ہے وہ جتنا مہنگائی کرے لیکن جیتنا تو انہوں نے ہی ہے۔ عمران خان کے کہنے پر اگر الیکشن جلد کرالئے جائیں وہ الیکشن ہار جائیں تبھی وہ یہ ڈنڈھوڑا پیٹتے پھریں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ انہیں نہیں پتہ کہ دو تہائی اکثریت اس سے آگاہ ہے کہ آج جو معیشت تباہ ہوچکی یہ جو مہنگائی ہے یہ سب خان صاحب کا کیا دھرا ہے۔
اور جس طرح انکے خطرناک معاہدات کے راز افشاں ہوتے جارہے ہیں وہ اکثریت کھوتے جارہے ہیں۔ اس لئے اگر ن لیگ امپائر کو خوش نہ بھی کرے تو انکے لئے اور کوئی آپشن نہیں چونکہ دوبارہ وہ عمران خان جو اکثریت کھوبیٹھنے والے ہیں ان کو چاہ کر بھی آگے نہیں لاسکتے۔ عمران خان نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے۔ یعنی عمران خان زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں اس معاشی صورتحال میں اس طرح کے اقدامات سے معیشت مزید بحرانی کیفیت کی طرف جاسکتی ہے۔ ن لیگ کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی کیس میں عمران خان کو جیل بھیج دیا جائے تاکہ ان سے چھٹکارا مل سکے اور یہ ٹاسک رانا ثناء اللہ کو سونپا گیا ہے اور وہ اسی تگ و دو میں ہیں کہ کونسے کیس میں اسے جیل بھیجا جائے لیکن سپریم کورٹ بناوٹی کیس میں ن لیگ کی رکاوٹ بن رہی ہے۔ یہی سپریم کورٹ جس پر کل عمران خان تنقید کررہے تھے آج ان سے ریلیف مانگ رہے ہیں اور انہیں جابجا ریلیف دیاجارہا ہے۔ راناثناء اللہ ایک تگڑا اسکینڈل کا کیس تیار کررہے ہیں جو جلد تیار کی جائے گی تاکہ لانگ مارچ کی نوبت نہ آئے۔