اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک سے انٹرنیٹ سروس کی بندش یا اس میں مداخلت روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس کے باعث سنگین اور خطرناک نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے ایک نئی رپورٹ میں کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے لاکھوں افراد کی زندگیوں اور انسانی حقوق پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بندش کے نتیجے میں اسپتال ایمرجنسی میں ڈاکٹروں سے رابطہ نہیں کرپاتے، ووٹرز امیدواروں کے بارے میں جاننے سے قاصر ہوجاتے ہیں اور پرامن مظاہرین کسی پرتشدد حملے پر مدد کے لیے کال نہیں کرپاتے۔
رپورٹ کے مطابق یہ انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکشنز سروسز کی بندش کے محض چند اثرات ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر مشیل باشلیٹ نے ایک بیان میں کہا کہ اس طرح کی بندش اس وقت ہورہی ہے جب بیشتر انسانی حقوق کے لیے ڈیجیٹل دنیا ضروری بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کو بند کرنے سے مالی اور انسانی حقوق دونوں کے حوالے سے ناقابل اندازہ نقصان ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کی عہدیدار پیگی ہکس نے کہا کہ پہلی بار انٹرنیٹ کی بندش عالمی توجہ کا مرکز اس وقت بنی جب مصر کے تحریر اسکوائر میں احتجاج کیا جارہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے ہم نے یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر اس طرح کی بندش کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، جیسے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی، گرفتاریاں یا قتل۔
انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کی بندش کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانی حقوق کے حوالے سے فکرمند ہونا شروع ہوجائیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2016 سے 2021 کے دوران 74 ممالک میں انٹرنیٹ کی بندش کے 931 واقعات ریکارڈ ہوئے، کئی جگہ تو انٹرنیٹ تک رسائی کو بار بار روکا گیا یا بہت طویل وقت تک بند رکھا گیا۔
پیگی پکس نے زور دیا کہ انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے تفصیلات اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ کئی بار اہم آن لائن پلیٹ فارمز تک رسائی کو بلاک کردیا جاتا ہے یا موبائل سروسز کو محدود کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بندش جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔