ملک کو اس وقت سب سے زیادہ استحکام کی ضرورت ہے اور یہ استحکام امن سے مشروط ہے کوئی بھی ملک بغیر امن کے ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں بدامنی کی وجہ سے سرمایہ کاری پر بہت زیادہ فرق پڑا ہے جس کی وجہ سے متعدد ممالک نے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کا رسک نہیں لیا۔ اندرون خانہ حالات بہتر ہوجائیں تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑے گا اس کے لیے امن پر زور دینا انتہائی ضروری ہے .یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کے متعلق مشاورت حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے متعلق حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی وعسکری قیادت نے شرکت کی۔
شرکاء کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیاگیا۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لئے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔سیاسی قیادت نے معاملات سے نمٹنے کی حکمت عملی اور اس میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔اجلاس کو ملکی داخلی اور خارجہ سطح پر لاحق خطرات اور ان کے تدارک کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور پاکستان افغانستان سرحد پر انتظامی امور کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن واستحکام کے لئے نہایت ذمہ دارانہ اور مثبت کردار ادا کیا ہے اور افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اپنا تعمیری کردار جاری رکھے گا۔ا
فغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں اورقربانیوں کو دنیا نے تسلیم کیا۔ افواج پاکستان کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ملک بھر میں ریاستی عملداری،امن کی بحالی اور معمول کی زندگی کی واپسی کو یقینی بنایاگیا۔آج پاکستان کے کسی حصے میں بھی منظم دہشت گردی کا کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہا۔اجلاس کے شرکا ء کو ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں بھی تفصیلات سے آگاہ کیاگیا۔اجلاس کو اس تمام پس منظر سے باخبر کیاگیا جس میں بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس دوران ہونے والے ادوار پر بریفنگ دی گئی۔افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری سے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی نمائندگی کرتے ہوئے آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت کررہی ہے۔
حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری مستقبل کے لئے فراہم کردہ رہنمائی اور اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔سیاسی قیادت نے معاملات سے نمٹنے کی حکمت عملی اور اس میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔بہرحال صرف ٹی ٹی پی سے ہی نہیں بلوچستان میں بھی اس عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اس وقت بلوچستان کی ایک اہم پارٹی بی این پی حکومت کا حصہ ہے اس کے ساتھ نیشنل پارٹی کو بھی آن بورڈ لیتے ہوئے مذاکرات کے حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اگر کوشش کی جائے تو کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا۔ کیا حکومت بلوچستان میں مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے بلوچستان کی دو بڑی بلوچ قوم پرست جماعتیں بی این پی اور نیشنل پارٹی کو مکمل مینڈیٹ دیتے ہوئے ٹاسک دے گی تاکہ وہ بات چیت کے لیے پلان ترتیب دیں، امید ہے کہ ایسی کوشش کی جائے گی البتہ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ بی این پی اور نیشنل پارٹی کے درمیان خلیج موجود ہے جس کی وجوہات پرآئندہ کبھی بات ہوگی مگر بلوچستان کے مستقبل کی خاطر ان جماعتوں کو فراخدلی سے بڑے فیصلے کرنے ہونگے تاکہ بلوچستان میں امن کے ساتھ خوشحالی اور ترقی آسکے۔