|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2015

بالآخر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تسلیم کر ہی لیا کہ بلوچستان کو مزید وسائل کی ضرورت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں زیادہ وسائل ملنے کی توقع کی جانی چائیے۔ اس سے قبل موصوف نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سے ایک ملاقات میں بلوچستان کو اضافی وسائل دینے سے انکار کیا تھا اور انکو یہ مشورہ دیا تھا کہ مشترکہ مفادات کی کونسل سے رجوع کریں کہ وہ بلوچستان کو اضافی وسائل دے ۔ دوسرے الفاظ میں اسحاق ڈار نے اپنی حکومت کی جانب سے صاف انکار کیا تھا کہ وہ اضافی وسائل بلوچستان کو دیں گے۔ بلوچستان ‘ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ایک خود مختار وفاقی اکائی ہے ۔ اس کے منتظم اعلیٰ یا وزیر اعلیٰ ملک کے وزیراعظم کے ہم پلہ ہیں ۔ اسحاق ڈار اور بہت سے وفاقی وزیر متکبر ہیں اور وہ وزیراعلیٰ کو خاطر میں نہیں لاتے بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ ملنے سے انکاری رہتے ہیں اور فون تک نہیں اٹھاتے اس طرح سے وہ بلوچستان کے وفاق اور اس کے عوام کی بے عزتی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ بلوچستان پنجاب کا ہم پلہ صوبہ ہے وہاں کا وزیراعلیٰ آسمان سے نہیں اترا، صرف فرق یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کا بھائی اور سب سے بڑا سیاسی شہر بھی ہے ۔ بلوچستان کو گزشتہ ساٹھ سالوں سے امتیازی سلوک کی شکایت ہے ۔ وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے نام صرف خانہ پری ہوتی ہے، جتنی رقم سال کی بجٹ میں رکھی جاتی ہے، انکا صرف آدھا خرچ ہوتا ہے ۔ یہ کئی دہائیوں پر محیط بجٹ جائزوں کے بعد کا مشاہدہ ہے ۔ امتیازی سلوک کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بلوچستان میں آج تک بنیادی ڈھانچہ تعمیر نہیں ہوسکا آر سی ڈی ہائی وے گزشتہ ساٹھ سالوں سے زیر تعمیر ہے اور آج تک مکمل ہونے کانام نہیں لیتی ۔ گوادر پورٹ جس کے لئے حکومت وقت زمین و آسمان کی قلابیں ملاتی ہے وہ ایک جیٹی سے زیادہ نہیں ہے اس کے تین برتھ تعمیر کیے گئے لیکن دنیا کی کسی ایک نجی کمپنی نے اس کو استعمال میں لانے کی خواہش ظاہر نہیں کی گوادر پورٹ کے تعمیرکی ابتداء سے ہی یہ اعلان ہوا تھا اور سابق صدر پرویزمشرف نے خود اعلان کیا تھا کہ پورٹ کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی ائیر پورٹ تعمیر کی جائے گی ۔ اس بات کو تیرہ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔ گوادر اےئر پورٹ پر بنیادی کام شروع نہیں ہوا۔ رہی بات پاکستان ‘ چین تجارتی گزر گاہ کی جس کا اصل منبع گوادر کی بندر گاہ اور شہر ہے ، جہاں پر پینے کو پانی اور بجلی نا پید ہے ۔ صدر پاکستان نے اپنے حالیہ دورہ کوئٹہ میں چینی حکمرانوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ گوادر کی گزر گاہ کے لئے موجودہ سڑکوں کو استعمال کیا جائے گاجہاں ضرورت ہوئی وہاں پر موٹر وے تعمیر ہوں گے ۔دوسرے الفاظ میں کسی بڑے پیمانے پر سڑکیں اور موٹر وے بنانے کے امکانات نہیں ہیں ۔پوری کی پوری حکومت پاکستان چین کے رحم و کرم پر ہے ۔ چین کی مرضی ہے کہاں پر کون سی تعمیرات کرے ۔ البتہ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری تجارتی اور صنعتی منصوبوں پر ہوگی جس میں سے نوے فیصد پنجاب میں واقع ہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ چین کا کوئی معاشی ‘ تجارتی یا صنعتی منصوبہ بلوچستان کے لیے بھی ہے ملک کی معیشت انتہائی خستہ حالت میں ہے اور موجودہ حکومت ریاست کے قیمتی اثاثے فروخت کرکے ریاستی کاروبار چلانا چاہتی ہے ۔ چین پاکستان تجارتی گزر گاہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے بلکہ عوام کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے کہ گوادر اور گزر گاہ کی تعمیر کے بعد پاکستان جنت بن جائے گا جو سراسر غلط ہے ۔ گوادر اور تجارتی گزر گاہ پر حکومت پاکستان فی الحال تو سرمایہ کاری نہیں کررہی ہے البتہ چین کے سرمایہ سے بعض صنعتی اور بجلی کے منصوبے پنجاب کے لئے مختص ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی ترقی کا سوال ہے اس کا دارو مدار صرف اور صرف بلوچستان کی ترقی پر ہے ۔ وسائل بلوچستان کے پاس ہیں دوسرے صوبوں کے پاس نہیں ہیں۔ پاکستان کا اسی فیصد سمندری علاقہ بلوچستان کے پاس ہے یہاں پر ایک نہیں درجنوں بندر گاہیں تعمیر کی جا سکتی ہیں جس پر حکومت پاکستان آج تک سرمایہ کاری کرنے کو تیارہی نہیں ہے ۔