وزیراعظم پاکستان نواز شریف امریکا کے دورے پر تشریف لے جارہے ہیں جہاں پر وہ امریکی صدر سے دو طرفہ تعلقات اور خطے کی خطر ناک صورت حال پر گفتگو کریں گے۔ گمان ہے کہ دونوں رہنما تلخ حقائق کا سامنا کریں گے اور اہم فیصلے کریں گے امریکا پاکستان ‘ بھارت اور افغانستان تینوں ممالک کا قریبی اتحادی ہے ۔ بنیادی طورپر اس کا کردار خطے میں امن ‘ سلامتی اور استحکام کے لئے ہونا چائیے لیکن امریکی میڈیا اور بعض اہلکاروں کے بیانات اور الزامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان سے زیادہ خوش نہیں ہے اور مسلسل حیلے اور بہانوں سے پاکستان پر اپنادباؤ بڑھا رہا ہے شاید اس کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہو ۔ آئندہ دنوں میں امریکا اور ایران پالیسی بھی واضح ہوجائے گی سعودی عرب اور امریکا ناراض ہیں کہ پاکستان ایران اور حوثی قبائل کے خلاف عرب ‘ امریکی اتحاد میں شامل نہیں ہوا ۔ دوسری طرف شام میں جنگ ایک اہم کروٹ لیتا نظر آرہا ہے جس سے امریکی مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خصوصاً روس کے فضائی حملوں نے جنگی صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا ادھر ایرانی فوجی جنرلوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شام کے اندر ایک لاکھ کی رضا کار فوج تیار کرلی ہے جو شام کی حکومت کی حمایت اور شام کے مخالفین کے خلاف جنگ کررہی ہے اور اہم فتوحات حاصل کررہی ہے ۔ شام کی صورت حال کی وجہ سے امریکا کا ایران کی طرف رویہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔ ممکن ہے کہ امریکا ایران کے خلاف ممکنہ کارروائی میں پاکستان کی امداد طلب کرے صاف ظاہر ہے کہ امریکا پاکستان سے افغانستان اور ایران کے بارے میں امداد طلب کر سکتا ہے ۔ افغانستان کی حد تک تو اس میں کوئی قباعت نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی حمایت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہے اور رہے گا۔ پاکستان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کر ے اور افغان حکومت کی مخالفت اس لئے جو کچھ بھی پاکستان کے خلاف کہا جارہا ہے وہ ایک پروپیگنڈے کا حصہ ہے اور اسکا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے کہ مزید قوت اور مشکلات کے ساتھ کابل حکومت کی مدد کو آئے اور دہشت گردوں کوشکست دے ۔ کابل حکومت کو روز اول سے کوئی خطرہ نہیں رہا ہے بلکہ وہ اس کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔1996ء میں طالبان نے کابل پرقبضہ حکومت پاکستان کی حمایت سے کیا تھا اس میں دو رائے نہیں تھی آج یہ صورت حال نہیں ہے آج امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا ارادہ ملتوی کردیا ۔ اور اب پوری شدت کے ساتھ افغانستان میں موجود ہے ۔ اب یہاں سوال ایران کا ہوگا جو پورے خطے میں ایک طاقتور ملک بن کر ابھرآیا ہے اور امریکی مفادات کو پورے خطے میں چیلنج کررہا ہے ۔ اس کی فوجی موجودگی شام ‘ لبنان ‘ عراق اور یمن میں ہے یا وہ اپنے اتحادیوں کی امداد کررہا ہے ۔ اگر ایران کی امداد سے صدر اسد شام کی جنگ جیت جاتے ہیں تو ایرانی اثر نفوذ کو پورے خطے میں کوئی نہیں روک سکتا بلکہ پورا گلف اور عرب بادشاہتیں اس کے زیر اثر آجائیں گی دنیا کے تیل کی گزر گاہوں پر خصوصاً باب المذہب اور آبنائے ہرمز پر ایران کی گرفت مضبوط ہوگی۔ شاید یہ سب باتیں امریکا اور سعودی عرب کو قابل قبول نہ ہوں اور وہ اس کی مزاحمت کریں ۔ایسی صورت میں امریکا کی یہ خواہش ہوگی کہ پاکستان‘ ایران کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہوجائے ۔ مصر اور ترکی پہلے ہی یمن کے جنگ کا حصہ ہیں ۔ پاکستان اس میں شریک نہیں ہے اس لئے وزیراعظم پاکستان اور ان کی پوری ٹیم امریکی دباؤ کا شکار رہے گی کہ وہ ایران کے خلاف اتحاد میں سعودی عرب اور گلف ممالک کی مدد کرے ۔ ایران کی مدد نہ کرے یہ مذاکرات انہی موضوعات پر ہوں گے۔ پاک بھارت تعلقات کو اس ملاقات میں ثانوی حیثیت حاصل ہوگی ۔