|

وقتِ اشاعت :   June 29 – 2022

ملک خداداد میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت گزری ہو جس میں حکمران یہ دعویٰ کرتے دکھائی نہ دیتے ہوں کہ ہم عوامی مفادعامہ کے تحت پالیسی بنارہے ہیں عوام دوست بجٹ کے ذریعے ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کررہے ہیں زیادہ سے زیادہ بوجھ عوام پر نہیں ڈالاجائے گا ہر ممکن کوشش ہوگی کہ غریب شہریوں کو ہر سطح پر ریلیف فراہم کی جاسکے۔

مگر تاریخ گواہ ہے کہ اقدامات ان تمام تردعوؤں کے برعکس ثابت ہوئے ہیں۔ حالیہ صورتحال ہمارے سامنے ایک واضح مثال ہے گوکہ پی ٹی آئی کی معاشی حوالے سے غلط فیصلوں نے ملک کو ایک بہت بڑے بحران میں دھکیل دیا تھا مگر موجودہ حکومت جو سابقہ اپوزیشن تھی انہوں نے اس عزم کااظہار کیا تھا ہم عوام کو تمام تر بحرانات سے چھٹکارا دلائینگے ،بہرحال ایسا ہوتا ہوا فی الحال دکھائی نہیں دے رہا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کو قومی اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔ درآمدی موبائل فونز پر بھی لیوی عائد کر دی گئی۔قومی اسمبلی سے پاس کردہ فنانس بل میں درآمدی موبائل فونز کو مزید مہنگا کر دیا گیا۔

موبائل فونز کی درآمد پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے تک لیوی عائد کی گئی ہے۔بجٹ میں 30 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے جبکہ 30 ڈالر سے 100 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 200 روپے کی لیوی عائد کی گئی ہے۔ 200 ڈالر کے درآمدی موبائل فون پر 600 روپے کی لیوی عائد کی گئی ہے۔بجٹ میں 350 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر ایک ہزار 800 روپے اور 500 ڈالر کے موبائل فونز پر 4 ہزار کی لیوی عائد کی گئی ہے۔ بجٹ میں 700 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 8 ہزار روپے اور 701 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار روپے کی لیوی عائد کی گئی ہے۔قومی اسمبلی سے پاس کردہ بجٹ میں مٹی کے تیل، ہائی اوکٹین ولائٹ ڈیزل پر بھی 50 روپے کی لیوی عائد کی گئی ہے اور گاڑی کے انجن میں ڈالنے والے موبل آئل پر بھی 50 روپے کی لیوی عائد کر دی گئی ہے۔گھریلو جلانے والے سلنڈرز ایل پی جی پر بھی 30 روپے فی کلو لیوی عائد کی گئی ہے۔سینما، فلم پروڈکشن اور پوسٹ پروڈکشن کے درآمدی آلات پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے اور پروجیکٹرز، اسکرین، تھری ڈی گلاسز، ڈیجیٹل لاؤڈ اسپیکرز پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔ ایمپلی فائر، میوزک ڈسٹری بیوشن سسٹم اور دیگر اشیا پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کا بھی ریلیف ختم کر دیا گیا اور تنخواہ دار طبقے کے لیے نئی ٹیکس کی شرح منظور کر لی گئی۔ ماہانہ 50 ہزار روپے تک تنخواہ لینے والوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا جبکہ ماہانہ 50 ہزار روپے سے ایک لاکھ تک تنخواہ لینے والوں پر 2.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد ہو گا۔ایک سے 2 لاکھ تنخواہ والوں پر 15 ہزار روپے فکس ٹیکس ہو گا جبکہ اضافی رقم پر 12.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد ہو گا۔ ماہانہ 2 سے 3 لاکھ تنخواہ والوں پر ایک لاکھ 65 ہزار سالانہ، 2 لاکھ سے اضافی رقم پر 20 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی گئی۔حالیہ بجٹ سے واضح دکھائی دے رہا ہے کہ عوام کو کس قدر ریلیف فراہم کی گئی ہے جو غریب شہری پہلے سے ٹیکسوں تلے دب کر رہ گئے ہیں اب مزید ان پر یہ بوجھ لادھ دیا گیا ہے۔ اب شہری موبائل سے لے کر سوکھی روٹی خریدنے تک سوچیں گے کہ وہ اپنے بجٹ کو کس طرح مینج کرکے چلائیں ۔

پہلے تو پھر بھی عوام کسی حد تک ضروری اشیاء سمیت دیگر چیزوں کی خریداری کے حوالے سے اپنا بجٹ رکھتے تھے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہزار بار سوچ کر کوئی چیز خریدیں گے جو خواب عوام کو دکھایاگیا وہ صرف خیالی دنیا تک محدود رکھنے کے لیے تھا۔ بہرحال اس کے نتائج منفی ہی حکومت کے حوالے سے خود پڑینگے سوال پھر اسی طرف آجاتا ہے کہ جب پی ٹی آئی نے غلط فیصلے اور اقدام کرکے ملک کو معاشی حوالے سے شدید مشکلات میں ڈال دیا تھا تو عدم اعتماد کے بعد حکومت لینے کی بجائے عام انتخابات کی تیاری کی جاتی کم ازکم عوام کا بھروسہ برقرار رہتا ۔البتہ ان حالات کے باعث حکومتی سیاسی جماعتوں پر زور اور دباؤ ضرورآئے گا اب یہ موجودہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عام انتخابات سے پہلے کیا سرپرائز دیکر جائینگے جس سے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی آسکے اور عام انتخابات میں حکومتی جماعتیں سرخرو ہوسکیں یہ چند ماہ میں واضح ہوجائے گا۔