|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2022

گزشتہ چند برسوں سے ملک کا سب سے اہم اور بڑا ادارہ نیب انتہائی متنازعہ طور پر سامنے آیا ہے اور یہ کسی سروے، ادارے یا عوام نے نہیں بلکہ سیاستدانوں نے ہی اعتراف کیا ہے جو اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، دوسرے جو اس سے براہ راست متاثر ہوئے۔

بات گھوم پھر کر دوبارہ سیاستدانوں پر آجاتی ہے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں اس ادارے میں غیرشفاف طریقے کار سمیت منظور نظر افراد کی تعیناتی کی۔ المیہ یہ ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ایک ویڈیو جب طیبہ گل نامی خاتون نے بنائی جس طرح کے نازیبا الفاظ جاوید اقبال استعمال کررہے تھے اسے عہدے سے ہٹانے کے ساتھ تحقیقات کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ اسی کو بلیک میلینگ کے طور پر استعمال کرکے ان سے مخالفین کے خلاف کام لیا گیا۔یہ ہمارے یہاں سیاست کے معیار اور انصاف کو واضح کرتا ہے۔

اب ایک اور بڑا انکشاف جسٹس (ر) جاوید اقبال کے متعلق سامنے آیا ہے کہ ایک مسنگ پرسن کی اہلیہ نے جسٹس (ر) جاوید اقبال سے رابطہ کیا تو اس پر موصوف نے انتہائی غلیظ الفاظ استعمال کئے تھے جونا قابل بیان اور ناقابل تحریرہیں۔اگر اس طرح کے الزامات کسی اور ملک میں اہم شخصیت اور ادارہ کے سربراہ پر لگتے تو نہ صرف اس کی تحقیقات فوری ہوتیں اور ثابت ہونے پر سزا بھی دی جاتی مگر ہمارے یہاں چند روز اس پر بحث و مباحثے کے بعد معاملے کو سرد خانے کی نذر کیا جاتا ہے۔

اگر اب بھی رعایت اور مروت سے کام لیا گیا تو انصاف سے عوام کا اعتماد جو اب تک تھوڑا بہت رہتا ہے وہ بھی اٹھ جائے گا۔ متاثرین کے انکشافات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کارروائی کا آغاز کیا جائے۔کب تک سزا و جزا پر بااثر کو رعایت اور مظلوموں کو سزاملتی رہے گی۔ کسی بھی مہذب ملک میں اس طرح کے عمل کو انتہائی غیر پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے اور اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔لہذا متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر تحقیقات شروع کی جائیں تاکہ کوئی اور شخصیت ادارے کوآڑھ بناکر خواتین کو ہراساں نہ کرسکے۔ امید ہے کہ ان الزامات کی تہہ تک جانے کے لئے حکومت اپنا کردار ادا کرے گی اور شفاف طریقے سے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔