بھاگ کے امام بار گاہ میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں 11افراد ہلاک اور 13افراد زخمی ہوئے ۔ تمام ہلاک شدگان اور زخمی اللہ کی عبادت میں مصروف تھے ۔ خودکش حملہ آور نے مغرب کی نماز کے دوران حملہ کیا ۔ مقامی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ خودکش بمبار نوجوان تھا وہ بر قعہ پہن کر امام بار گاہ میں داخل ہوا اور اپنے آپ کو بم سے اُڑا دیا جس میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ۔ بھاگ بلوچستان کاایک پر امن ترین علاقہ ہے اور وسیع تر کچھی کا علاقہ ہے جہاں کے لوگ امن اور بھائی چارے میں دیگر خطے کے لوگوں سے زیادہ پر امن ہیں جہاں پر لڑائی جھگڑے کی خبریں شاوذ نادر ہی ملتی ہیں اس کا ثبوت اس سے بڑا کیا ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کو خودکش دھماکے کے لئے باہر سے خودکش حملہ آور درآمد کرنا پڑا مقامی بمبار ان کو نہ مل سکا کیونکہ بھاگ اور وسیع تر کچھی کا میدانی علاقہ امن اور محب کا گہوارہ ہے ۔ بمبار افغان یا فاٹا کا رہائشی معلوم ہوتا ہے یہ پولیس اور تفتیش کاروں کی ذمہ داری ہے کہ یہ پتہ لگائیں کہ خودکش بمبار کون تھا۔ کس نے اس کو استعمال کیا اس کا معاوضہ کس کو اور کتنا ادا کیا ۔ اس کے لئے فاٹا اور کے پی کے کے تفتیشی افسران سے تعاون حاصل کیا جائے کہ کون سا گروپ اس دھماکے کا ذمہ دار تھا اور مقامی طورپر سہولت کار کون تھے ۔ انہوں نے دور دراز علاقے کو خصوصاً محرم کے دوران کیوں نشانہ بنایا ۔ اس سے قبل بھی انتہا پسندوں نے ایک درگاہ کو نشانہ بنایا تھا اور وہاں پر آگ لگانے والے بم نصب کیے تھے جس سے کئی ہلاکتیں ہوئی تھیں ’ عاشورہ کے دوران دہشت گردی ایک قابل نفرت عمل ہے ۔ عوام الناس جن کا کسی بھی فرقہ سے تعلق ہو اس کی مذمت کریں گے اس کی حمایت کوئی شریف انسان نہیں کر سکتا ۔ کوئی غیر معمولی انسان جو پاگل ہو اس قسم کی دہشت گردی کی حمایت کرسکتا ہے ۔ ملک بھر کے عوام نہ صرف اس کی مذمت کرتے ہیں بلکہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔بھاگ کا یہ واقعہ حکومت کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے سیکورٹی کے معاملات مناسب نہیں تھے جس کی وجہ سے بھاگ کے امام بار گاہ پر خودکش حملہ ہوا ۔ امید ہے کہ عاشورہ کے دن زیادہ سخت سیکورٹی کے انتظامات ہوں گے جس سے دہشت گرد مزید کارروائی کی جرات نہ کر سکیں ۔ اس موقع پر ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ فرقہ پرست جماعتوں پر پابندی لگائی جائے جو مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلاتے رہتے ہیں ۔ آئے دن سڑکوں پر مختلف بہانوں سے جلوس نکالتے رہتے ہیں ۔ اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں اور جلسوں میں قابل اعتراض نعرے لگاتے رہتے ہیں جس کا واحد مقصد نفرت اور اشتعال پھیلانا ہے ۔بعض عناصر کو صرف اس کام کے لئے کھلی اجازت دی گئی ہے کہ ان کے نفرت انگیز بیانات ،دھونس اور دھمکی کی بناء پر اخبارات چھاپتے رہیں ورنہ نتائج کا سامنا کریں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض حکمران طبقے ان کی حمایت کرتے ہیں اور شاید ان کو ’’ قیمتی اثاثہ ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر طرح کے فرقہ وارانہ جلسے اور جلوس ‘ خصوصاً عام شاہراہوں پر ہر گز نہ ہوں، صرف چار دیواری میں محدود ہوں ۔ ان کا مذہبی حق صرف چار دیواری کے اندر ہے ۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر نہیں ۔ شہری زندگی میں رخنہ ڈالنے کی اجازت کسی کے پاس نہیں ہے ،نہ اس کو دین نے دیا ہے نہ حکومت یہ اجازت دے سکتی ہے ۔ اس لئے فرقہ پرست جماعتوں اور گروہوں کو مجبور کریں کہ وہ چار دیواری کے اندر اور بغیر لاؤڈ اسپیکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تاکہ عام شہری کی زندگی میں خلل نہ پڑے ۔
عاشورہ کے دوران امن
وقتِ اشاعت : October 24 – 2015