|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے کالعدم تنظیموں کے 23 فراری ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو گئے۔ ہتھیا ر ڈالنے والے فراری کہتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا وہ غلط تھا ۔اب پاکستان کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ یونائیٹڈ آرمی سے تعلق رکھنے والے تئیس فراریوں نے اپنے ہتھیار کوئٹہ میں مری قبیلے کے سربراہ صوبائی وزیر نواب جنگیز مری کے حوالے کئے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فراریوں کے گروپ لیڈر میر جان مری نے بتایا کہ وہ دس سال تک نام نہاد آزادی کی جنگ سے وابستہ رہے۔ یہ جنگ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں اس لئے علیحدگی اختیار کرکے باعزت پاکستانی ا ور پرامن بلوچ کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔باہر بیٹھے افراد ہمیں پاکستان کے خلاف لڑانے پر اکسارہے ہیں اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ یہ محض ایک دھوکہ ہے اور بلوچ قوم کو یہ بھی یقین ہونا چاہیے کہ ہماری ترقی صرف پاکستان کیلئے کام کرنے میں ہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس جھوٹی آزادی کی جنگ سے علیحدہ ہونے اور ہتھیار پھینکنے کا اعلان کرتے ہیں ۔دوسرے علیحدہ پسند بلوچ رہنماؤں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی ہتھیار پھینک کر بلوچستان اور پاکستان کی ترقی میں شامل ہوجائیں۔ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ بلوچوں کو حقوق فراہم کریں۔ میر جان مری نے بتایا کہ وہ لسبیلہ اور دیگر شہری علاقوں میں کارروائیاں کرتے تھے اور شہری علاقوں میں کالعدم تنظیموں کا کوئی کیمپ نہیں ہوتا۔ ہتھیار ڈالنے والے باقی افراد میں رمضان مری، محمد صدیق، سعید خان، لال محمد، ساکوان، غفار ، ارباب خان، بہار خان، اظہار، مزار، محمد علی، رحیم خان، سکندر ، انور خان، نصیر ، باغ علی، رازی خان، غلام ، مولانا قادر، صدوخان ، ہیبت خان ، حاجی مراد اور واحد شامل ہیں۔ اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء صوبائی وزیر آبپاشی اور مری قبیلے کے سربراہ نواب جنگیز مری کا کہنا تھا کہ ریاست کے خلاف لڑنے والے پچاس فیصد افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور مزید بھی لوگ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ْانہوں نے کہا کہ ریاست کے خلاف لڑنے والے باقی نوے فیصد افراد سے بھی ہمارے رابطے ہیں اور وہ ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں تاہم ہتھیار ڈالنے والوں کیلئے اعلان کردہ پرامن بلوچستان پالیسی پر عملدرآمد میں تاخیر سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔حکومت کی جانب سے امدادی رقم اور دیگر مراعات کی فراہمی پر اب تک عملدرآمد شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اسی طرح متعلقہ اداروں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والوں کی کلیئرنس اور دیگر مراحل کے باعث بھی تاخیر ہورہی ہے۔ تاخیر کی اسی وجہ سے کئی ناراض بلوچ جو ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار تھے واپس چلے گئے ہیں ۔ کچھ لوگ چھ مہینے سے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ نواب جنگیز مری کا کہنا تھا کہ ان کے والد مرحوم خیر بخش مری اور بھائی حیربیار مری سے ان کی سوچ الگ ہے۔ والد کی وفات کے بعد اب حیربیار مری لوگوں کو ریاست کے خلاف لے جانا چاہتے ہیں جبکہ میں انہیں قومی دھارے میں شامل کراکر پرامن راستہ کی طرف لانا چاہتا ہوں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ کسے کامیابی ملتی ہے۔براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری سے مذاکرات متعلق سوالات پر جنگیز مری نے کہا کہ حیربیار ان کے بھائی ہے اگر حکومت نے انہیں کوئی ٹاسک دیا تو وہ اپنے بھائی سے تعلقات بہتر کرنا جانتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ باہر بیٹھے افراد پاکستان سے کسی ہمدردی کی خاطر نہیں آئیں گے بلکہ وہ صرف اس وجہ سے ہی واپس آئیں گے کہ وہ بلوچستان میں ان کی تنظیمیں کمزور ہوگئی ہیں اور لوگ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ایک فیصد بھی یقین نہیں کہ وہ واپس آکر ملک کی بہتری کیلئے کوئی کردار اد اکریں گے۔ مری معاہدے سے متعلق سوال پر ن لیگ کے رہنماء نے کہا کہ صوبے میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق وہ پارٹی کے مرکزی فیصلے کی تائید کریں گے۔ وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہیں تاہم اگر مرکزی قیادت نے کوئی ذمہ داری دینا چاہی تو اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہوں۔